خارجہ پالیسی

خارجہ پالیسی میں قابل عمل راہ حل

دنیا بھرکے نادار، مظلوم اور مستضعف کی حمایت اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے

دنیا بھر کے ناداروں  اور کمزوروں  کی حمایت کی پالیسی اجاگر کرنے پر امام خمینی(ره)  کا اصرار آپ کی قیادت کا ایک تابناک پہلو ہے۔  آپ نے اسلامی انقلاب کے قائد ہونے کے ناطے نہ صرف اس پالیسی کا اعلان کیا بلکہ بارہا اس نکتے کی تاکید کی دنیا بھرکے نادار ، مظلوم اور مستضعف چاہے وہ مسلمان ہوں  یا غیر مسلمان ان کی حمایت اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔  یقینا یہ انداز قیادت کے زمانے میں  امام خمینی(ره)  کی کامیابی،  آپ کی جانب اقوام کے روز افزوں  رجحان اور اسلامی انقلاب کے مقابلے میں  غیر ملکی دشمنوں  کی ناکامی کا بہت موثر سبب ثابت ہوا۔ 

دنیا کے مستضعفین کے واضح مصداق کے طور پر آزادی پسند تحریکوں  کی کفر کے خاتمے اور ان تحریکوں  کے حقوق کی بازیابی تک  ہمہ پہلو حتی فوجی حمایت اگرچہ ممالک کی رائج خارجہ پالیسی کے معیاروں  سے ہم آہنگ نہیں  ہے لیکن امام خمینی(ره) نے بارہا اس کی تاکید کی اور اس اسلامی جمہوریہ کی اصولی خارجہ پالیسی قرار دیا۔  زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آپ مسلمانوں  کو دنیا میں  طاقت حاصل کرنے کی دعوت دینے کو ضروری جانتے تھے۔

’’میں  دوٹوک الفاظ میں  اعلان کرتا ہوں  کہ اسلامی جمہوریہ ایران دنیا بھر میں  مسلمانوں  کے اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش کرے گا اور اس بات کی کوئی وجہ نہیں  کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں  کو دنیا میں  طاقت اپنے ہاتھ میں  لینے کے اصول کی دعوت نہ دے اور طاقت ، دولت اور فریب والوں  کی لالچ اور جاہ طلبی کے سد راہ نہ ہو۔  ہمیں  ایران کے محروم عوام کے مفادات اور مقاصد کے حصول کے لئے پالیسیاں  بنانا ہوں  گی۔  ہمیں  دنیا بھر کے تمام لوگوں ، مسلمانوں  کے مسائل کے حل اور مجاہدین،  مفلسوں  اور ناداروں  کی حمایت کے سلسلے میں  اپنی پوری کوشش کرنی چاہئے اور اسے اپنی خارجہ پالیسی کا ایک اصول جاننا چاہئے‘‘ (صحیفہ امام،  ج ۲۰، ص ۱۲۲ و ۲۳۸)

امام خمینی(ره)  ہمیشہ یہ چاہتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ کے حکام اس اصولی موقف پہ ہمیشہ کاربند رہیں  یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس کے اعلان پر زور دینے کے علاوہ اس کی بقا کی بھی بہت زیادہ تاکید کی۔  آپ نے فرمایا: ’’ ہمیں  مستضعفین کے دفاع کے اصولی موقف کو ہر ممکنہ صورت میں  زندہ رکھنے کی پوری کوشش کرنا چاہئے‘‘۔  (صحیفہ امام،  ج ۲۰ ،ص ۲۳۵)

ای میل کریں