امام خمینی(ره) نے اپنی ان تحریروں میں کہ جو تفسیری پہلو کی حامل ہیں اور جن میں آیت کا مقصود بیان کیا ہے جیسے سورۂ حمد، توحید اور قدر، سورہ کے آغاز یا اختتام میں اس سورہ کی اہمیت وفضلیت کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد تدریجاً سورہ کی تفسیر پیش کی ہے۔ اسی وجہ سے دوسرے مفسرین کی مانند لغت، ادب اور معنی کو بیان کیا ہے اور آیت کے مطلب ومفہوم کی تفسیری اور تاویلی زاویہ نگاہ سے وضاحت کی ہے۔
امام خمینی (ره)اس حصے میں تحقیق عرفانی، تنبیہ ونکتہ، فائدہ عرفانی، ایقاظ ایمانی، تنبیہ اشراقی، اشراق عرفانی، تنبیہ ایمانی وتنبیہ عرفانی جیسے موضوعات کا انتخاب کر کے ان سے متعلق ابحاث کو پیش کرتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ عرفانی رجحان کی حامل ان تمام ابحاث میں ، بعض شرعی احکامات کو فقہی فروعات کے طورپر پیش کرتے ہیں ۔ البتہ خود یہ فقہی فروعات بھی عرفانی جہات کی حامل ہیں ، مثال کے طورپر آیت { اِیٰاکَ نَعْبُدُ وَاِیٰاکَ نَسْتَعِیْن } کی تفسیر میں قصد انشاء پر بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں :
جیسا کہ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ قصد انشاء جائز نہیں ہے، کیونکہ اگر قصد دعا اور خدا سے التجا کے طورپر انجام پائے تو یہ چیز قرآنیت و وحی کی تعلیم کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے، مثلاً کوئی شخص نماز کے دوران خدا سے التجا کر رہا ہے کہ میں فقط تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور فقط تجھ ہی سے مدد طلب کرتا ہوں ۔ لیکن امام خمینی (ره)اس فقہی نظریے کو اس دلیل کی بنا پر قبول نہیں کرتے کہ بعض اوقات عرف میں انسان اپنے کلام سے کسی دوسرے شخص کی مدح وثنا بیان کرتا ہے اور بعض اوقات حافظ کے شعر کے ذریعے یا دوسروں کے کلام کے توسط سے یہ کام انجام دیتا ہے۔ بنابریں ، کوئی حرج نہیں کہ کوئی شخص نماز کی حالت میں اس سورہ اور اس کی آیت میں موجود مدح وثناء کے ضمن میں اس طرح کی دعا کرے یہ بات قرآنیت کے منافی نہیں ہے۔
’’پس اگر { الحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمِین } کے ذریعے حقیقتاً تمام محامد (حمد وثناء) کو حق باری تعالیٰ کیلئے انشاء کریں و { اِیٰاکَ نَعْبُدُ } کے وسیلے سے قصر عبادت کو حق باری تعالیٰ کیلئے انشاء کریں ، تو یہ بات اپنے حقیقی مفہوم کے ساتھ صدق کرے گی کہ ہم نے کلام خدا سے ہی اس کی حمد بیان کی ہے او کلام خدا کے وسیلے سے عبادت کو مختص کیا ہے‘‘۔(تفسیر سورۂ حمد، ص ۶۷)
امام خمینی (ره)اس کے بعد اس نکتے کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ تفسیری ابحاث کو پیش کرنے کا اسلوب اور اس کی ترتیب وتنظیم، اس طرز سے جدا ہے کہ جس کو مفسر کسی آیت کے معنی ومراد کیلئے انتخاب کرتے ہیں ، جیسے مآخذ اور استخراج معانی کی روش۔ اسی لیے روش کی کیفیت کو پیش کرنا ممکن ہے کہ کتاب کی کشش کو بڑھائے یا گھٹائے لیکن مطالب کو پیش کرنے میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ۔