جماران کے مطابق، یادگار امام نے اسلامی آزاد یونیورسٹی شعبہ قم میں اسلامی تہذیب کے دائرے میں فقہ کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: فقہ، مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اصولِ حکمرانی کی حیثیت کا نام ہے، تاہم فقہ اسلامی کا جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ ہمآہنگ ہونا ضروری ہے وگرنہ اسلامی تمدن کی تشکیل کا ہرگز امکان نہیں پایا جاتا۔ امام خمینی کی جانب سے فقہ حکومتی پر تاکید، اسی بات کی عکاسی کرتی ہے۔
انہوں نے فقہ حکومتی کی دو تفسیروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: فقہ حکومتی کی پہلی تفسیر یہ ہےکہ حکومتی مسائل میں، فقہی مسائل پر مشتمل امور کو فقہ حکومتی سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی وہ فقہی مسائل جو حکومتی امور سے مربوط ہو انہیں فقہ حکومتی کا نام دیا جاتا ہے۔
فقہ حکومتی کی دوسری تفسیر یہ ہےکہ معاشرتی مسائل پر، فقیہ کا زاویہ نگاہ دینی حکومت کے قیام کے مفروضے پر قائم ہو یعنی معاشرے پر حاکم نظام کا تعلق دین سے ہونے کے ناطے دینی احکام پر عملدر آمد کیا جانا ہے۔
انہوں نے کہا: اگر ہم اسلامی تہذیب کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہیں تو ایک کار آمد فقہ کا ہونا ضروری ہے تاکہ اسلام کی بنیاد پر تہذیب کی بنیاد کو آگے بڑھا سکیں۔ اور جس شخصیت نے لوگوں کے ذہنوں کو اس جانب متوجہ کیا ہے وہ امام خمینی کی ذات ہے۔ امام کے بتائے ہوئے نسخے پر عمل کرتے ہوئے جدید حالات کے مطابق فقہ اسلامی کو ہمآہنگ کیا جا سکتا ہے۔
سید على خمینى نے بعض مغربی مفکرین کی تالیف کردہ کتابوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: تہذیب و تمدن کے اصلاح کا طریقہ کار، وہی ہے جو اہل مغرب نے اسلامی تہذیب کے مقابلے میں اپنایا تھا یعنی اسلامی تہذیب سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اسے اپنے اہداف کے مطابق بروئے کار لایا تھا۔
یادگار امام نے آخر میں کہا: علم اور معرفت کے میدان میں کامیابیوں کی عظیم چوٹیوں کو سر کئے بغیر کوئی بھی تہذیب پوری دنیا پر غالب نہیں آسکتی، اس میں شک نہیں کہ انتہا پسندی اور ایذا رسانی، مغلوب تہذیبوں کا شیوہ کار رہا ہے۔
ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ