2004ء میں ابومصعب الزرقاوی نے عراق میں "توحید و جہاد" نامی دہشت گرد گروہ تشکیل دیا اور ساته ہی اسامہ بن لادن کے ہاته پر بیعت کر لی۔ اس طرح یہ گروہ ابومصعب الزرقاوی کی قیادت میں عراق میں القاعدہ کی ذیلی شاخ کے طور پر ابهر کر سامنے آیا۔ یہ گروہ بڑے پیمانے پر شدت پسندانہ کاروائیوں کی بدولت عراق میں ایک انتہائی خطرناک دہشت گروہ کی صورت اختیار کر گیا۔
2006ء میں ابومصعب الزرقاوی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے "شورائے مجاہدین" کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے عبداللہ رشید البغدادی کو اس کے سربراہ کے طور پر معین کر دیا۔ ابو مصعب الزرقاوی کی ہلاکت کے بعد ابو حمزہ المہاجر اس گروہ کے نئے سربراہ کے طور پر سامنے آیا۔ اس سال کے آخر میں ابو عمر البغدادی کی سربراہی میں کئی دہشت گرد گروہوں کے اتحاد سے "دولت الاسلامیہ فی العراق" کی بنیاد رکهی گئی۔
19 اپریل 2010ء کو عراقی سیکورٹی فورسز اور امریکی فوجیوں نے ایک مشترکہ کاروائی کے دوران "الثرثار" نامی علاقے میں موجود ایک گهر پر حملہ کیا جہاں توقع کی جا رہی تهی کہ ابو عمر البغدادی اور ابو حمزہ المہاجر موجود ہیں۔ شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد اس گهر پر ہوائی حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں یہ دونوں دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔ ان دونوں کی لاشیں عام لوگوں کو دکهائی گئیں۔ تقریبا ایک ہفتے بعد اس دہشت گرد گروہ نے انٹرنیٹ پر اپنے ایک بیانئے کے ذریعے ان دونوں دہشت گردوں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے ابو بکر البغدادی کو اپنے نئے سربراہ کے طور پر اعلان کیا۔ اس کے علاوہ الناصر لدین اللہ سلیمان کو وزیر جنگ کے طور پر معین کیا گیا۔
حال ہی میں ایک معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر جان اینڈریو مورو المعروف عبد العلیم اسلام نے اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا کہ مغربی قوتیں ہمیشہ سے اسلامی نام نہاد جہادی گروہوں کو استعمال کرتی رہی ہیں اور ان کا استعمال اپنے مفادات اور سامراجی نظام کو تحفظ دینے کے لئے کیا جاتا رہا ہے اور آج بهی وہی کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر مورو کا کہنا ہے کہ داعش کا رویہ بالکل غیر اسلامی ہے۔
ڈاکٹر مزید کہتے ہیں کہ ایک ویڈیو میں ایک خاتون کو اللہ اکبر کے نعرے لگا کر آبرو ریزی کیا جا رہا ہے!! دوسری میں مردہ سپاہیوں کے جگر کها رہے ہیں!! کیـــا یہ اسلام ہے؟!! ہر گز نہیں! اسلام ان شیطانی کاموں کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔
انہوں نے داعش کے دہشت گردوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم نہ تو پیغمبر اکرم(ص) کی سیرت پر ہو اور نہ ہی صحابہ کرام کی سیرت پر۔
ڈاکٹر مورو کہتے ہیں کہ داعش ایک سلفی اور وہابیت کی انتہا پسند شاخ کا نام ہے جسے تکفیری کہا جانا درست ہے۔ انہوں نے روز اول سے ہی اسلام کے اصل چہرہ کو مسخ کرنے کے لئے ہر وہ اقدام کیا جو یہ کر سکتے تهے اور ان اقدامات کی زندہ مثالیں آج اکیسویں صدی میں بهی دیکهی جا رہی ہیں۔
پاکستانی اسکالر زید حامد کہتے ہیں کہ عراق میں داعش کے ساته مل کر دہشت گردی کرنے والے اکثریت دراصل صدام کی باقیات ہیں جو ملک میں افراتفری کا موقع ملنے پر سر نکال رہے ہیں۔ صدام کی جماعت ایک سیکولر اور اسلام مخالف جماعت تهی اور صدام کے مظالم کی تاریخ سے عراقی تاریخ بهری پڑی ہے۔ صدام خود بهی اسلامی بیداری سے خوف میں مبتلا تها اور یہی وجہ ہے کہ سنہ1979ء میں امام خمینی(رح) کی قیادت میں آنے والے اسلامی انقلاب کی راہوں کو عراق میں روکنے کے لئے صدام نے ایران پر آٹه سال تک جنگ مسلط کی۔ لہذا صدام کے حامیوں کی جانب سے اگر داعش میں شمولیت کا عمل اور داعش کے دہشت گردوں کی مدد کی جا رہی ہے تو اسے غلط نظریہ سے نہیں لینا چاہئیے کہ سنی مسلمان داعش کے ساته ہیں، نہیں۔ صدام کے حامی بهی داعش کی طرح ہیں کہ جنہوں نے شیعہ اور سنی اسلام کو قبول کرنے سے انکار کیا اور دونوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔“
انہوں نے مزید کہا: سوچئے آخر کیوں آج مغربی میڈیا نے داعش کے لئے سنی مسلمان ہونے کی رٹ الاپ رکهی ہے؟ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ داعش بنیادی طور پر شیعہ مسلمانوں کے دشمن ہیں اور اگر مغربی ذرائع ابلاغ اپنی سازش میں کامیاب ہو گئے تو وہ یقیناً پهر دنیا میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور یہ دراصل عالمی سامراجی اور عالمی صیہونزم کی سازشوں کا ایک حصہ ہے۔
شفقنا اردو