اسلامی نظام کے برسر اقتدار آنے سے ہمارے ملک میں احیا ہونے والی مذہبی روایات میں سے ایک دفاعی جہاد کی روایت ہے۔ اس روایت کا احیا افواج کی ذمہ داریوں اور اغراض و مقاصد میں اصلاح کے ساتھ تھا جو الحمد للہ خطرناک ترین مراحل میں جارح طاقتوں کی فوجی یلغار کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک کی اراضی سا لمیت اور اس پر حاکم اسلامی نظام کا تحفظ میں کامیاب رہیں جس فوج کو طاغوتی حکومتیں پسند کرتی ہیں وہ فوج ہے جو سر سے پیر تک مسلح ہو کر قوم کی عزت و وقار کے تحفظ سے پہلے ان کے اقتدار کی حفاظت کرے۔
اس طرح کے نظام میں مسلح افواج کی حیثیت ملک کی سرحدوں کی نگرانی اور عوام کی جان ومال کی حفاظت کے لئے نہیں ہوتی بلکہ ان کی تشکیل ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی خطرات سے حکومت کو محفوظ کرنے کے لئے ہوتی ہے۔
اس وقت دفاعی جہاد کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جس فوج نظریاتی فوج ہو اور اس کی تشکیل مومن اور رشید جوانوں اور آزاد ضمیر دیانتدار اور ولی فقیہ کے تابع افسروں سے ہوئی ہو اور ظاہر ہے کہ ایسی فوج کی تشکیل صرف معاشرے میں اسلامی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ممکن تھی جو الحمد للہ قائم ہوگئی ہے۔
عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ حضرت امام خمینیؒ نے مسلح افواج کی تحلیل کے نظرئیے پر خط بطلان کھینچتے ہوئے ان کے جسم میں فضیلتوں سے بھر پور نئی روح پھونکی اور حقیقتاً فوج کو دن کے سورماؤں اور رات کے عبادت گزاروں کے لئے موزوں ادارے میں تبدیل کردیا ہے۔ امام ؒ نے انقلاب اسلامی کے محافظین کے گارڈ (سپاہ پاسداران) اور مستضعفین کے رضاکار دستوں کے نوبنیاد اداروں کے ڈھانچے کو منظم خطوط پر استوار کرنے اور ایسی مسلح فوج تشکیل دینے کے لئے اپنا تاریخی فرمان صادر کیا جس کا نمونہ حضرت علی ؑ نے مالک اشتر ؓ کے سامنے پیش کیا تھا۔
امام خمینیؒ نے کہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے ہاتھوں کو بوسہ دینا پسند کرتے تھے لمحے بھر کے لئے اپنے ان روحانی فرزندوں کے وعظ و نصیحت سے غفلت نہ برتی جنہوں نے محاذ جنگ کو اپنے وجود کی خوشبو سے معطر کر رکھا تھا۔ امام امت ؒ انہیں تزکیہ نفس اور جہاد اکبر کی تلقین فرماتے جس کی بنیاد پر دیگر قسم کے جہاد ممکن ہو سکتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا ہے:
’’انسان کو ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ خدا نخواستہ اپنی ذات کے بہکاوے میں نہ آئے اور نفس امارہ کے ہاتھوں اسیر نہ ہوجائے۔ پاسدار کو اس بات کی طرف دھیان دینا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کا نفس اسے بہکا کر ایسے عمل کی انجام دہی پر مجبور نہ کرے جو اس کی اپنی تباہی کے باعث بننے کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ کے چہرے کو مخدوش کرنے کا سبب بھی ہو‘‘۔
’’جس امر نے آپ کو باطنی اور نفسانی جہاد اور شیطانی ٹولے سے جنگ کے دونوں محاذوں پر کامیاب کرایا ہے اور انشاء اللہ کراتا رہے گا، آپ کا خلوص اور ایمان ہے۔ اپ کو اپنے نفس کے تزکیہ، اسلام سے تمسک اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے اعمال کی انجام دہی کے لئے سنجیدگی سے کوششیں بروئے کار لانا چاہئے‘‘۔
حضرت امام خمینیؒ نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے حضرت ولی عصر (عج) کی نیک دعاؤں سے جہاد جیسی اہم اور مقدر ساز مذہبی روایت کو زندہ کیا اور ایسے نظریاتی لوگوں کی پرورش کی جن سے مخاطب ہوکر خود فرماتے ہیں : ’’آپ لوگوں کے ملکوتی چہرے پر مجھے رشک آتا ہے‘‘ ۔
امام خمینیؒ نے اس طرح جہاد کی بھولی ہوئی دینی روایت کا احیا کیا اور اس کی برکت سے اسلامی مملکت کی کشتی کو شیطانوں کی سازشوں کے طوفان سے بچاتے ہوئے ساحل نجات تک پہنچادیا۔
امام خمینیؒ نے تاریکی کے پجاریوں کی یلغار سے بچنے کے لئے خداوند عالم سے بہشت کی جانب ایک دروازہ کھولنے کے لئے دعا کی جس سے صرف اس کے محبوب بندے داخل ہوسکیں ۔ چنانچہ حضرت علی ؑ نے نہج البلاغہ میں فرمایا ہے: {ان الجہاد باب من ابواب الجنۃ فتحہ اللہ لخاصۃ اولیائہ} (جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک ہے جسے خدا نے اپنے خاص (محبوب) بندوں کے لئے کھول رکھا ہے)۔
مقالے کے اس حصے میں اس نکتے کا بیان ضروری ہے کہ عراق کی طرف سے مسلط کردہ جنگ کے دوران امام خمینیؒ نے خاص تاکید کے ساتھ حکم دیا کہ اسلامی ملک کی سرحدوں سے جارحیت کے خاتمے کو تمام دیگر مسائل پر اولیت حاصل ہونا چاہئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دفاعی جہاد کی مذہبی روایت کو اہمیت دینے کے علاوہ اس روایت کی پابندی پر اصرار کرتے تھے بلکہ وہ محاذ جنگ کے اگلے مورچوں پر نبرد آزمائی کے لئے بے چین نظر آتے تھے ، کئی مرتبہ اس خواہش کا اظہار بھی فرمایا ہے، چنانچہ ایک مقام پر انہوں نے فرمایا : ’’کاش میں بھی ایک پاسدار ہوتا‘‘۔