امام خمینی(رہ) کی برسی کے انعقاد میں فعال کمیٹی کے سکریٹری جناب محمد علی انصاری نے متعلقہ کمیٹیوں کے مسئولین نیز شہید فہمیدہ ہیڈ کوارٹر میں موجود عملہ کی کانفرنس میں بسیجیوں اور فوجی دستوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
امام خمینی(رہ) کی برسی کے انعقاد میں آپ حضرات پرچمدار کی حیثیت رکهتے ہیں؛ اس پروگرام میں مُلک اور بیرون ملک کے مختلف گروہوں سے افراد شریک ہوتے ہیں اور سب کا ایک ہی شعار ہوتا ہے کہ ہم امام بزرگوار کے بتائے راستے کے راہی ہیں اور امام خمینی(رہ) کا پہلا نعرہ اور پیغام ادب، اخلاق، اصلاح اور دوسروں کے ساته مدارات ہے۔ ہم اس پروگرام میں مختلف اقوام، ملل، ممالک، اقلیتوں اور متعدد مذاہب کے پیروکاروں کو دعوت دیتے ہیں اور ان سے ہمارا یہی کہنا ہوتا ہے کہ ہم اس پرچم کی سرفرازی چاہتے ہیں۔ اس پرچم کی سربلندی کا اصل عنوان، دنیا کو آگاہ کرنا ہے کہ ہم اس پرچم امام اور ولایت کے زیر سایہ آپس میں بهائی اور متحد ہیں۔
آپ نے پیغمبر اعظم(ص) کی حدیث بیان کرتے ہوئے اضافہ کیا: کفر سے کتنا قریب ہے؛ یہ کہ ایک شخص کسی کے عیب سے آگاہ ہو اور اسے مستور رکهے اور الیکشن کے زمانہ میں یا اس موقع پر جب لڑائی جهگڑے کی نوبت آ پہنچے تب اس عیب کو برملا کر بیٹهے اور کہے: میرے پاس تمہارے خلاف ثبوت ہیں! پیغمبر کا ارشاد ہے کہ یہ کفر سے قریب ہے!
موصوف نے مسلمان کی عزت و آبرو اور مذہب اسلام میں اخلاق کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: نبی مکرم(ص) فرماتے ہیں: یہ بات کفر سے کتنی قریب ہے کہ ایک مسلمان کسی دوسرے مسلم شخص کے عیب جانتا ہو اور اسے اس دن کے لئے اپنے دل میں محفوظ رکهے جب اس کے خلاف بولنا ہو اور اس موقع پر اسے فاش کر دے!
جناب انصاری نے اظہار فرمایا: جب مختلف احزاب اور گروہ کے افراد ایک دوسرے کےساته مہر ومحبت سے سرشار ہوکر کام کریں اور سماج اختلافات کا شکار نہ ہو، یقیناً امام، پیغمبر اور امیرالمومنین کی ارواح شاد ہوں گی۔
انہوں نے بتایا: امام خمینی(رح) کو جس بات سے اذیت ہوتی تهی اور جو انہیں بہت رنجیدہ خاطر بناتی، وہ اسلامی اور شیعی سماج میں اختلافات کا ہونا تها۔ ساته ہی موصوف نے اضافہ کیا: اب جبکہ ہمارے ملک کو ہمیشہ سے زیادہ اتحاد، یکدلی اور یکجہتی نیز تمام اقوام اور افراد ملک کو آپسی محبت کی ضرورت ہے؛ تو ہم نے انفرادی جنگیں شروع کر دی ہیں اور وقت گیر جهگڑوں میں ہم مبتلا ہیں! ان اختلافات کو ختم کیجئے۔ ایسا نہ ہو کہ تهوڑی سی لاپرواہی کے نتیجہ میں یہ چهوٹے چهوٹے مسائل آپسی بغض و کینہ میں تبدیل ہو جائیں کہ جس کے بعد ہمارا ایک دوسرے کو برداشت کرنا بالکل ہی ناممکن ہوجائے۔ اسلام کا راستہ اصلاح کا ہے اور واقعاً کوئی مشکل پائی جاتی ہے تو اس کی اصلاح کریں۔
آقائے انصاری نے ثقافتی امور کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا: گویا تمدن {ایک طرح سے} امام خمینی(رح) کی برسی کے موقع پر ہونے والے پروگرام سے ناقابل تفکیک ہے۔ امام بزرگوار کی برسی کا ماحصل، تمدن وثقافت ہے اور ہم اس پروگرام میں ثقافت کی ترویج کے لئے جس قدر بهی کوشاں ہوں یقیناً اس کے فوائد ہمیں ضرور حاصل ہوں گے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین محمد علی انصاری نے اپنی گفتگو کے دوران ثقافتی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے اضافہ کیا: ہمیں یاد رکهنا چاہئے کہ رہبر انقلاب کے ثقافتی یلغار کے سلسلہ میں بیانات آج یا کل سے مخصوص نہیں، بلکہ گذشتہ بیس سال سے آپ اس ثقافتی یلغار کو لے کر پریشان اور اس بارے میں چارہ اندیشی کرنے میں مشغول ہیں۔
جناب انصاری نے مزید کہا: سماجی، اخلاقی، سیاسی اور ثقافتی مشکلات سے نپٹنے کے لئے ہمیں غور وخوض کرنا ہوگا اور اس سلسلہ میں ٹهوس اور مستحکم اقدام کرنا ہوگا۔ رہبر انقلاب کی یہ فکر ہرگز سطحی تفکرات سے قابل حل نہیں ہے۔ یہ کہنا بالکل صحیح نہیں ہے کہ تمام تر ثقافتی مشکلات بد حجابی میں پوشیدہ ہے یا اس جیسے دیگر مسائل میں، اسے محدود کر دینا ہرگز درست نہیں۔ وہ ثقافتی مشکلات جن سے ہم ایرانی عوام متاثر ہیں، تین حصوں پر مشتمل ہیں:
آقای انصاری نے پہلا حصہ، اصل اسلام پر حملہ شمار کیا اور بیان کیا: یہ وہ حملہ ہے جو ان تمام افراد کی جانب سے ہوتا ہے جن کا اسلام سے کوئی سر وکار نہیں ہے۔ وہ اسلام کی سرنگونی چاہتے ہیں۔ مجهے تاریخ میں اس سے بڑا کوئی حملہ نظر نہیں آتا ہے۔
دوسرا حصہ، مذہب تشیع پر حملہ ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج دنیا میں مختلف طریقوں سے شیعیت اور مکتب علوی کے پیروکاروں کے خلاف زور آزمائی ہو رہی ہے۔ آج ہمارے خلاف کتابیں اور مقالات تحریر ہو رہے ہیں۔ ہمارے خلاف پروپگنڈے ہو رہے ہیں اور ہمارا مزاق اڑایا جا رہا ہے۔ ناروا نسبتیں دی جا رہی ہیں۔ آج بهی پوری دنیا میں شیعہ مظلوم ہیں۔
تیسرا حصہ، انقلاب اور اس تاریخی نیز نورانی راہ پر حملہ ہے کہ جس کے موسس امام خمینی(رح) تهے۔
موصوف نے اضافہ کیا: رہبر انقلاب صرف ایران کے لئے فکرمند نہیں ہیں بلکہ آپ دنیا کے گوشہ وکنار میں رہنے اور بسنے والے تمام انسانوں کے لئے فکرمند اور دلسوز ہیں۔
مجهے نہیں لگتا کہ آج ایران جیسا کوئی دوسرا ملک ہوگا جو ان حملات کی زد پر ہے، یہ کہتے ہوئے جناب انصاری نے کہا: خطرہ نہایت سنگین ہے اور اس سے ہم سجه سکتے ہیں کہ یہ امسال یا سال گذشتہ سے مربوط مسئلہ ہے۔
انہوں نے تاکید کی: اب جنگ کے ذریعہ کسی ملک کے کلچر اور تہذیب وتمدن کو پائمال کرنے کا دور نہ رہا اور ہمارا دشمن اس سے با خبر بهی ہے۔ آج دنیا میں جنسی مشکلات ملاحظہ کیجئے۔ بظاہر یہ مشکلات آج کی علمی ترقی کا درجہ رکهتی ہیں کہ ہم جنس بازی در حقیقت ایک قسم کی حمایت ہے در حالیکہ یہ ہمارے اعتبار سے بشریت کا خون ہے اور اس کے سوا کچه نہیں۔ آج کی انسانیت اگر اس پلید وپست فکر کو قبول کرتی ہے تو گویا اس نے اپنے ہی ہاتهوں خود اپنا خون کر لیا ہے۔
آقای انصاری نے گذشتہ حکومتوں کی قدردانی کرتے ہوئے کہا: گذشتہ تمام حکومتوں نے امام خمینی(رح) کی برسی کے انعقاد میں ہمارا بهرپور ساته دیا اور اس موقع پر ہم سابق صدر جناب آقای احمدی نژاد اور ان کے وزراء کا بهی شکریہ ادا کرتے ہیں۔
انصاری نے مزید کہا: ڈاکٹر روحانی اس ملک کی ایک با وقار شخصیت ہیں اور موجودہ حکومت کی مدد سے اب تک امام بزرگوار کی برسی میں کسی طرح کی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ ہاں! یہ بات ضرور ہے کہ اس حکومت نے ہمیں امید دلائی ہے کہ یہ ہماری ہمیشہ سے زیادہ اس پروگرام کو بہتر بنانے میں ہر طرح کی مدد فرمائے گی۔
آقای انصاری نے گذشتہ پچیس سال سے خدمات انجام دینے والے ان تمام تر فورسز اور عوامی مدد کا شکریہ ادا کیا جو امام راحل کی برسی کے انعقاد میں کسی بهی قسم کا تعاون کرتے ہیں۔