دشمنوں کا پروپیگنڈا یہ ہےکہ "دین افیون ہے!!" افسوس ناک بات یہ ہےکہ اس کا اثر ایران میں نوجوانوں پر بھی ہوا ہے بلکہ ہمارے بعض روشن فکر افراد نے بھی اس اثر کو قبول کیا ہے یعنی "دین معاشرے کےلئے افیون ہے!!" اس کا مطلب یہ ہےکہ دین اہل اقتدار کی ایجاد ہے تاکہ لوگوں کو خواب غفلت میں سلا دیں اور خود سیاہ و سفید کے مالک بن جائیں۔
اسلام کے بارے میں یوں کہتے تھے:
"اسلام چودہ سو سال پہلے کےلئے اچھا تھا لیکن آج کے دور میں تمام احکام اسلام نافذ نہیں ہوسکتے!!" انہیں اصلاً اسلام کے بارے میں علم ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں:
"انبیاء کو اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ دین بن سکے اور اس طرح اہل اقتدار کو تحفظ فراہم کریں" حالانکہ جس نے بھی تاریخ پڑھی ہو یا تاریخ اسلام کہ جو ہمارے زمانے سے نزدیک تر ہے، کا مطالعہ کیا ہو تو اسے معلوم ہوگا کہ کون لوگ کن افراد کے مقابل پر تھے؟ اگر کوئی تاریخ انبیاء کا مطالعہ کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ انبیاء کا تعلق کس طبقے سے تھا اور کس سے ان کی مخالفت تھی؟ اسے معلوم ہوگا کہ ان کا تعلق مستضعفین کے طبقے سے تھا ان کا تعلق تیسرے طبقے یعنی عوام سے تھا، وہ لوگوں کو استکبار کے خلاف مقابلہ کرنے کی ترغیب دلاتے تھے، ان میں سے ایک حضرت موسی علیہ السلام ہیں، حضرت موسی[ع] چرواہا تھے، اپنی مویشی چرانے والی عصا کے ساتھ کافی عرصے تک حضرت شعیب[ع] کی خدمت میں رہے۔ ان کے مویشیوں کو چراتے تھے۔ صورت کے اعتبار سے عام لوگوں کی طرح تھے، حضرت موسی اسی معاشرے سے اٹھے اور انہیں لوگوں کو فرعون کے خلاف اکٹھا کیا۔ فرعون نے اپنا تخت بچانے کی خاطر موسی کو بڑا نہیں کیا تھا، موسی نے لوگوں کو اپنے ساتھ لیا اور فرعونی تخت و تاج کو نابود کردیا ...
تاریخ اسلام جو (زیادہ) نزدیک ہے (اسے اٹھا کر دیکھ لیں) کیا قریش اور قریش کے مقتدر افراد نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کو بنایا تاکہ لوگوں کو گہری نیند سلا دیں اور وہ اپنی سود خوری، تجارت، لوٹ کھسوٹ اور چھپنا، جھپنی کو جاری رکھ سکیں؟!! یا یہ کہ رسول خدا (ص) قریش کے مقابل میں تھے؟
اگرچہ آپ خود بھی قریش میں سے تھے لیکن اپنے طرز عمل کے اعتبار سے آپ (ص) انہی نچلے طبقوں میں سے تھے اس معنی میں تو آپ (ص) اشراف میں سے تھے کہ آپ (ص) کا ایک قوم قبیلہ تھا، لیکن آپ (ص) کے پاس کچھ نہ تھا، مکہ میں زندگی نہ گزار سکے، دولتمند اور ظالم طبقہ کی وجہ سے ایک عرصے تک آپ (ص) کو کوہستانی علاقے میں جانا پڑا، وہاں ایک غار میں رہے تاکہ خفیہ طور پر کام کر سکیں۔
اس کے بعد آپ (ص) مدینہ تشریف لے گئے، مدینہ میں آنحضرت (ص) کے ساتھ کون تھے؟ کیا وہاں بھی (آپ (ص) کے ساتھ) دولت مند، ظالم، سود خور اور تاجر پیشہ افراد تھے؟ کیا اس وقت صاحب حیثیت اور صاحب قدرت یہودی، آپ (ص) کے ساتھ تھے؟ یا آنحضرت (ص) تیسرے درجے کے انسانوں کے پاس آئے؟ جو افراد آپ (ص) کے گرد جمع ہوئے وہ فقیر اور مفلس تھے۔ آپ (ص) خود بھی ایک ایسے گھر اور کمرے میں رہے جو کھجور کے تنے کا بنا ہوا تھا اس طرح کے چند کمرے تھے پھر مسجد بھی اس طرح کی آپ (ص) کے اصحاب کے پاس کے جن میں سے ایک جماعت اصحاب صفہ کی تھی، گھر تک نہیں تھا، وہ آتے اور اسی چبوترے پر سوجاتے ان کی زندگی اور رہن سہن یہی تھا۔ آنحضرت (ص) نے انہی کو اپنی ساتھ لیا اور کفار قریش کا خاتمہ کیا۔ انہیں فقراء، مستضعفین اور تیسرے درجے کے افراد کو جن کے پاس رہنے کےلئے گھر تک نہیں تھا، آنحضرت (ص) نے قریش سے نبرد آزما ہونے کےلئے تیار کیا۔
اسلام اور دوسرے ادیان الہی سب کے سب محرک تھے۔ انہوں نے لوگوں کو بیدار کیا۔ انبیاء کی تعلیمات نے لوگوں کو بیدار کیا اور صاحبان اقتدار اور مشرکین کے خلاف لوگوں کو آمادہ کیا۔
ماخذ: آئین انقلاب اسلامی، ص۴۷