اسلامی انقلاب کے بعد، تفکر اھلبیت میں پیشرفت

اسلامی انقلاب کے بعد، تفکر اھلبیت میں پیشرفت

کیا پیغمبر(ص) کی بعثت کا مقصد یہی تھا کہ وہ ابو سفیان جیسے ظالم اور جابر افراد کی اطاعت نہ کرنے والوں کو جہمنی ہونے کی خبر دے؟!!

ماضی میں حوزہ علمیہ میں اگر کوئی شخص باتقوی اور پڑھا لکھا ہونے کے ساتھ محدود پیمانے پر اهل بیت(ع) کی تعلیمات کو بیان کرتا تو یہی کافی تھا لیکن موجودہ دور کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ جہاں پوری دنیا، ہماری مخاطب قرار پاتی ہے، محدود پیمانے پر معارف اہل بیت(ع) کی تبلیغ جوابدہ نہیں ہوسکتی۔

داعش اور القاعدہ جیسے تکفیری گروہ، امریکی سیاست اور تیل کی آمدنی سے حاصل ہونے والی رقم کی مدد سے شیعیت کے خلاف سرگرم عمل ہیں اور یہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ موجودہ دور میں " تفکر اہل بیت " کو کافی حد تک پروان چڑھنے کا موقع میسر آیا ہے اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس میں نمایاں تیزی آئی ہے جو حیران کن ہے۔

ہماری روایات میں آیہ شریفہ «اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم» میں «اولی الامر» کا مصداق امام معصوم علیہ السلام ہے اور ہم اس نکتے کو کالج اور یونیورسٹی کے جوانوں کےلئے کس طرح سے تشریح کرسکتے ہیں؟ اور کیسے ان کو ہم مطمئن کر سکتے ہیں کہ «اولی الامر» کے ضمن میں بیان کی جانے والے شیعہ تفسیر کے علاوہ دوسری تمام تفسیریں غلط اور نادرست ہیں؟ کیونکہ اس ضمن میں بیان شدہ کچھ غیر شیعہ تفسیروں کے مطابق ہر حاکم، خواہ وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو، کی اطاعت واجب ہے کیونکہ ان کی نظر میں وہ «اولی الامر» ہے!! تاہم یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن ظالم کی اطاعت کو واجب قرار دے!!

«اولی الامر» کے ذیل میں ان کی طرف سے بیان کردہ تفسیر اگر صحیح ہوتی تو دین اسلام کے آنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جاہلیت کے دور میں ابو سفیان جیسے ظالم افراد حاکم کی صورت میں موجود تھے۔

کیا پیغمبر(ص) کی بعثت کا مقصد یہی تھا کہ وہ ابو سفیان جیسے ظالم اور جابر افراد کی اطاعت نہ کرنے والوں کو جہمنی ہونے کی خبر دے؟!!

لہذا ایسی غیر عقلی تفسیروں کو بڑے پیمانے پر میڈیا نیٹ ورک میں وہابیت کی جانب سے پرچار کئے جانے کے باوجود، غیر عقلی ہونے کی وجہ سے کسی بھی صورت میں فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتی۔ جبکہ شیعہ مکتب آزادی اور عقلی اصولوں پر قائم مکتب ہے  اور اس کی تفسیر عقلی اصولوں پر قائم ہے۔

اگر آج ہم حضرت علی علیہ السلام  کا دفاع کرتے ہیں تو صرف اس بنیاد پر ہے کہ اس دور میں حضرت علی علیہ السلام سب سے افضل ہونے کی بناپر دوسروں پر ہر لحاظ سے فوقیت اور برتری رکھتے تھے جس کا اعتراف خود مخالفین نے بھی کیا ہے اور یہی دلیل حضرت علی علیہ السلام  کا دوسروں پر مقدم ہونے کی بہترین عقلی دلیل ہے۔

 

حوالہ: پایگاه اطلاع رسانی آیت الله علوی بروجردی

ای میل کریں