امام خمینی (ره)کے نزدیک فہم قرآن کے دو حصے ہیں ۔ ان میں سے ایک حصے تک قواعد تفسیر، عقل سے فائدہ اٹھانے اور اس کی کوششوں کے ذریعے رسائی ممکن ہے اور دوسرا حصہ غیبی اور معنوی معارف پرمشتمل ہے اور بہت سے ارباب معرفت اور ارباب فلسفہ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ قرآن کو سمجھ سکتے ہیں، حالانکہ ان معارف کا ذکر کرنا وحی کے بیان اور مخاطب وحی کی وضاحت پر موقوف ہے۔
’’زبان قرآن کہ جو بعثت کی عظیم برکات میں سے ہے، رسول خدا (ص) کی بعثت کی عظیم برکات میں سے ہے ایسی زبان ہے کہ جو سہل ممتنع ہے اور بہت سے افراد شائد یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ قرآن کو سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ ان کی نظر میں آسان ہے اور بہت سے ارباب معرفت وارباب فلسفہ خیال کرتے ہیں کہ وہ قرآن کو سمجھ سکتے ہیں اس لیے کہ ایک پہلو ان پر ظاہر ہے لیکن اسکے پس پردہ دوسرے پہلو ان پر ظاہر نہیں ہیں ۔ قرآن کے پہلو کئی ہیں، جب تک رسول اﷲ (ص) مبعوث نہ ہوئے تھے اور قرآن اپنے مقام غیب سے نازل نہیں ہوا تھا تب تک موجودات میں سے کسی ایک کیلئے بھی جلوہ گر نہ ہوا تھا۔ ‘‘ (صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۴۳۱)
یہی مضمون ایک اور کلام میں زیادہ صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے اور اس میں زیادہ واضح طورپر تقسیم کو بیان کیا گیا ہے: ’’قرآن کی حد یہ ہے کہ { انّما یعرف القرآن مَن خُوطب بہ } یہ { یعرف القرآن مَن خوطب بہ } اس قسم کی آیات کے بارے میں ہے وگرنہ بعض آیات کہ جو ظاہری احکام اور نصائح سے متعلق ہیں ان کو تو سب سمجھتے ہیں۔ ‘‘ ( صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۲۶۲)
پس بیرونی منبع اور ماخذ کا تعلق ان معارف اور آیات کے ساتھ ہے جو غیبی حقائق کو بیان کرتی ہیں ۔
دوسری طرف آیت اﷲ خمینی (ره) قرآن کے بعد وحی کے سب سے بڑے شارحین اور مفسرین رسول اﷲ (ص) سے لے کر امام زمانہ (عج) تک کے معصومین (ع) کو سمجھتے ہیں کیونکہ وہ خداوند کبریا کے مخفی خزانوں کے امین اور حکمت ووحی کے معدن، معارف وعوارف کے اصول اور مقام جمع وتفصیل ے حامل ہیں اور چونکہ وہ ان خصوصیات کے مالک ہیں اس لیے بیان معارف اور حقائق کی تفصیل کے سلسلے میں ان کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ (آداب الصلاۃ، ۱۸۴)
اس کلام کا مفہوم یہ ہے کہ معارف کے بیان اور احکام کی تفصیل کے وقت معصومین (ع) کے کلام کو مدنظر رکھنے کی روایت پر توجہ رہنی چاہیے۔ امام خمینی (ره)معارف کے بیان اور حقائق کو ذکر کرنے میں پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیت (ع) کے خاص مقام کے قائل تھے اور وہ اس بات کے قائل تھے کہ قرآن کی حقیقت کا فہم فقط نبی اکرم (ص) کی ذات مبارک اور ان افراد کیلئے ممکن ہے کہ جو معنوی انوار اور حقائق الٰہی کے اعتبار سے روحانیت میں آنحضرت (ص) کے شریک ہیں اور مکمل اتباع کی وجہ سے رسول اﷲ(ص) کی ذات میں فانی ہوگئے ہیں ۔ اسی لیے امام خمینی (ره) فرماتے ہیں :
’’قرآن کی حقیقت جس نورانیت اور کمال کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) کے قلب میں جلوہ گر ہوتی ہے اسی کے ساتھ ان کے قلوب میں بھی جلوہ گر ہوتی ہے۔ امام خمینی (ره)اہل بیت (ع) کا نمایاں مصداق علی ابن ابی طالب (ع) کو سمجھتے ہیں اور دوسروں کے بارے میں معتقد ہیں کہ اگر باقی لوگ قرآن کو سمجھتے ہیں تو وہ مقام غیب سے مقام شہادت میں قرآن کے تنزل کے بعد اس کو سمجھتے ہیں۔ ‘‘(آداب الصلاۃ، ص ۱۸۱)
بنابریں، امام خمینی (ره)مندرجہ بالا کلام میں حقائق الٰہیہ اور انوار معنویت کی بحث کرتے ہیں نہ کہ الفاظ کی تشریح اور کلمات کے باہمی ربط اور معنی سند کی، بواطن کے ادراک کیلئے علم معصوم ؑکی جانب رجوع کے سلسلے میں امام خمینی (ره)کے کلام کا دوسرا شاہد یہ ہے کہ آپ نے اس تاکید کے بعد کہ قرآن میں سب کچھ ہے، اس بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ ہم قرآن کے ظاہر کو سمجھتے ہیں لیکن قرآن میں ایسی باتیں بھی ہیں کہ جن کو اس سے حاصل کرنا چاہیے جو اس کا مخاطب ہے اور ان باتوں کی اس سے تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔
’’قرآن کے اندر تمام اشیاء ہیں، احکام شرعی ظاہری ہیں، ایسے قصص ہیں جن کے بطون کو ہم نہیں سمجھ سکتے ہیں، ظاہر کو تو سمجھتے ہیں، وہ سب کیلئے ہے، وہ ایسی چیز ہے جس کو سب جانتے ہیں لیکن جس چیز کو جاننا چاہیے اس کو نہیں جانتے ہیں ۔ اس کو { انّما یُعرف القرآن مَن خُوطب بہ } کے مطابق خود رسول اﷲ(ص) جانتے ہیں ۔ دوسرے لوگ اس سے محروم ہیں مگر یہ کہ آپ (ص) سے اس کو حاصل کریں ۔ اولیاء نے بھی آپ (ص) سے ہی حاصل کیا۔‘‘ (تفسیر سورۂ حمد، ص ۱۳۸)