بعثت کا ایک محرک یہ ہے کہ یہ قرآن کہ جو غیب میں تھا ،غیبی صورت میں تھا ،(فقط) علم خدا میں تھا اور غیب الغیوب میں تھا ،اس عظیم ہستی (ص) کے ذریعے ،وہ ہستی (ص) کہ جس نے بہت زیادہ مجاہدت و ریاضت کرنے اور حقیقی فطرت اور توحیدی فطرت پر ہونے کی وجہ سے اور غیب کے ساتھ رابطہ رکھنے کی وجہ سے اس مقدس کتاب کو مرتبہ غیب سے متنزل کیا ہے بلکہ (یہ مقدس کتاب ) مرحلہ بہ مرحلہ نازل ہوئی ہے اور آخر درجہ شہادت (ظاہر)پر پہنچ کر الفاظ کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔اور اب ان الفاظ کو ہم اور آپ سب سمجھ سکتے ہیں اور اس کے معانی سے اپنی توان اور (استعداد ) کے مطابق فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔بعثت کا مقصد اس دسترخوان نعمت کو لوگوں کے درمیان نزول کے زمانے سے لے کر قیامت تک بچھانا ہے اور یہی بات کتاب خدا کے نزول کے اسباب میں سے ایک سبب اور رسول اکرم (ص) کی بعثت کی اصل وجہ ہے (بَعَثَہُ اِلَیْکُم) ( اس رسول (ص) کو تمہاری طرف بھیجا)، وہ رسول(ص) تمہارے لیے قرآن اور ان آیات:
''وَیُزَکِّیہِم وَیُعَلِّمُہُمُ الکِتابَ وَالْحِکْمَة'' (سورہ جمعہ ،آیت ٢)
'' (وہ رسول(ص)) ان کا تزکیہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے''
کی تلاوت کرتا ہے۔شاید ان آیات کی مقصودیا ہدف یہی ہوکہ رسول اکرم(ص) تزکیہ اور تمام افراد کی تعلیم وتربیت اور اسی کتاب وحکمت کی تعلیم کیلئے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ پس بعثت رسول اکرم (ص) کی وجہ وحی اور قرآن کا نزول ہے اور انسانوں کیلئے تلاوت قرآن کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا تزکیہ کریں اور ان کے نفوس گناہ کی اس ظلمت وتاریکی سے پاک ہوں جو ان کے اپنے اندر موجود ہے اور اس پاکیزگی اور تزکیہ کے بعد ان کی روحیں اور اذہان اس قابل ہوں کہ کتاب وحکمت کوسمجھ کرسکیں۔
صحیفہ امام ،ج ١٤، ص٢٥٢