اسد اللہ علم

اسد اللہ علم کی حکومت اور امام خمینی (ره) کی تحریک

مراد سلیمانی زمانہ نے ’’ اسد اللہ علم کی حکومت اور امام خمینی کی تحریک‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جو کہ موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (ره) سے عنقریب منظر عام پر آنے والی ہے

دور حاضر کی تاریخ کے قلمکار اور محقق جناب مراد سلیمانی زمانہ کہتے ہیں کہ : کتاب مکمل ہوچکی ہے اور چھپنے کے لئے مذکورہ ادارہ کو دی جا چکی ہے ۔ اس کتاب میں   ہم نے اسد اللہ علم  کی سیاسی زندگی  کو بیان کرنے کے ساتھ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تحریک کے ساتھ پہلوی  کارندوں  کے رویہ  خاص طور پر اسد اللہ  کے طریقۂ کار کی وضاحت کی ہے ۔ در اصل امیر اسد اللہ پہلوی حکومت کے دوسرے دور میں ایک ممتاز  سیاسی چہرہ تھا جس نے چار مرتبہ وزارت  کی کرسی سنبھالی اور ایک بار وزیر اعظم بھی بنا۔

اندورن ملک میں بھی بہت سارے محققین اور مؤرخین نے اسد اللہ علم کے بارے میں مختلف کتابیں لکھی ہیں۔ ان حضرات نے اگر چہ اپنی کتابوں میں ’’علم‘‘ کے سیاسی خاندان اور اس کی سیاسی زندگی پر کھل کر روشنی ڈالی ہے لیکن امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تحریک کے ساتھ اس کے ٹکراؤ کو بیان نہیں کیا ہے ۔

اسی بناء پر  اسلامی تحریک کے پچاس سال گزر جانے کے بعد بھی اس سلسلہ میں کوئی  کتاب نہیں لکھی گئی ہے  لہذا  ضرورت تھی کہ اسلامی انقلاب کے آغاز میں رونما ہونے والے واقعات نیر  اس اسلامی تحریک کے  ساتھ پہلوی حکومت کے رویہ پر اسی دور کی باقی رہ جانے والی کتابوں  سے استفادہ کرتے ہوئے روشنی  ڈالی جائے تاکہ تاریخ کے اس عظیم دورانیہ سے مخصوص ایک تاریخی کتاب موجود رہے  اور یہ تحقیقی کمی بھی پوری ہوجائے۔

اس کتاب کی چوتھی فصل جو اس کی آخری فصل بھی ہے نیز کتاب کا اصلی حصہ بھی شمار کیا جاتا ہے، یہ پوری فصل ،جولائی 1961ء  سے لے کر مارچ 1962ء تک بیس مہینے کی علم کی حکومت کے بارے میں ہے ۔

اس محقق نے   اس آخری فصل میں درج ذیل موضوعا ت   پر گفتگو کی ہے:

۱۔ پہلوی حکومت کے پہلے اور دوسرے دور میں سیاسی میدان میں علماء اور مراجع عظام کی  طرف سے مقابلہ۔

۲۔ اسد اللہ علم کی وزارت عظمیٰ

۳۔ اسد اللہ کی کابینہ

۴۔ ریاستی سطح کی انجمنوں کا مسودہ

۵۔ چھ بہمن ۱۳۴۱ ہجری شمسی بمطابق 26 جنوری 1961ء میں رونما ہونے والا سفیدانقلاب اور ریفرینڈم۔

۶۔ چھ مسودوں کے سلسلہ میں امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کا موقف۔

۷۔ فروردین ۱۳۴۲ بمطابق مارچ 1962ء میں مدرسۂ فیضیۂ قم اور مدرسۂ طالبیہ تبریز پر شاہی حکومت کا حملہ۔

۸۔ امام خمینی کی گرفتاری۔

۹۔ ۱۵ خرداد کےقیام کو کچلنا۔

۱۰۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی حمایت میں علماء  کا ’’تہران‘‘ اور ’’ری‘‘ ہجرت کرنا۔

یہ اس فصل کے اہم ترین موضوعات ہیں کہ جن کے  متعلق اسناد اور ضمیمے بھی کتا ب آخر میں پیوست ہیں ۔

کتاب کےلکھنے والے محقق  پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے سلسلہ میں ہونے والی خصوصی نشتوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ:تحقیقی مواد سے پتا چلتا ہے کہ اسد اللہ علم کا وزیر اعظم بننا، شاہ  کی نئی ڈیکٹیٹر شپ نیزپہلوی حکومت کے  سیاسی اور معاشرتی مخالفوں کو کچلنے کے سلسلہ میں پہلا قدم تھا۔ ’’علم‘‘  کی مسند قدرت نے شاہ کے لیے پوری حکومت کو اپنے ہاتھ میں لینے کا بہترین موقع تھا ، اس طرح سے  کہ  اس وقت وزیر اعظم فقط ایک آلۂ کار تھا جس کہ ذریعہ شاہ بغیر کسی مزاحمت کا سامنا کیے ہوئے ہر میدان میں لوگوں کے سروں پر مسلط ہوا تھا۔

ای میل کریں