سنہ ۱۳۴۸ ھ ش (۱۹۶۹ ء) میں ۲۱ خرداد (۱۴ جون) کو نجف کے امن عامہ کے ادارے کا سربراہ اور ناظم امام کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ وہ شورائے انقلاب کی کمشنری کی طرف مامور ہے۔ حاج مصطفی کو بغداد روانہ کرے۔ (اس جرم میں کہ جب آیت اﷲ حکیم مرحوم بغداد سے واپس نجف پہنچے تو امام کی جانب سے ان کی ملاقات اور اظہار ہمدردی کی خاطر ان کی خدمت میں گئے تھے) اس حکم پر عمل درآمد کرنے کیلئے آپ کی طرف سے اجازت درکار ہے۔ امام ؒ نے جواب دیا کہ ’’اگر مصطفی کو بغداد بھیجنے کا مسئلہ میری اجازت پر موقوف ہے تو میں ہرگز ایسی اجازت نہیں دیتا ہوں اور اگر تم اس کو گرفتار کرنے پر مامور ہو تو تم خود جانو‘‘ جب اس دن صبح کے ۸ بجے حاج سید مصطفی کو عراق کے کچھ حکومتی افراد کے ذریعہ بغداد بھیج دیا گیا تو امام حسب معمول ٹھیک وقت پر درس دینے کیلئے حاضر ہوئے۔ درس میں موجود سارے طلاب وفضلاء پریشان ومضطرب تھے۔ لیکن امام ؒ بڑے پر سکون واطمینان کے ساتھ تدریس میں مصروف تھے اور علمی وفقہی پیچیدہ مسائل کو آرام سے حل فرما رہے تھے۔ اسی طرح روزمرہ کی ساری مصروفیات مثلاً اقامہ نماز وملاقاتیں اور دوسرے سارے امور کو اطمینان خاطر کے ساتھ انجام دے رہے تھے۔