شاہ کی آخری خواہش کو عملی بنانے کی خاطر، بخــتیار، صدر پارلیمنٹ سمیت بذریعہ ہیلی کاپٹر مہرآباد ایئرپورٹ پہنچے۔
شــاہ، باقاعدہ سرکاری رسومات کے ساته، ایران سے جانا چاہتے ہیں۔
بختیار ایئرپورٹ پہنچے تو شاہ مطمئن ہوئے۔
اطلاعات اخبار کی شہ سرخی " شــاہ رفت " نے اسے پریشان اور غصے کا شکار کردیا تها!
شاہ کے ایران سے جانے کی خبر، پوری دنیا میں پهیل گئی۔
پیرس، نوفل شیٹا میں ولولہ انگیز حالات قائم ہوئی۔
تمام صحافی، اس بات کے منتظر تهے کہ اس خبر کے تناظر میں، امام خمینی کا کیا ری ایکشن ہوسکتا ہے؟
امام خمینی نے نامہ نگاروں کے نام اپنے پیغام میں کہا:
میں اس عظیم کامیابی کے موقع پر، ایرانی قوم کو مبارکــــباد پیش کرتا ہوں۔ ہمیں اس بات کو اچهی طرح سمجه لینا چاہئے کہ یہ کامیابی، شاہی خاندان کے خاتمہ کے ساته، اغیار کے تسلط کے انجام کی خوشخبری بهی دے رہی ہے۔ اغیار کے تسلط سے رہائی، پہلوی حکومت کے خاتمے سے کہیں زیادہ ہمارے لئے اہمیت رکهتی ہے۔
اربعین حسینی(ع) قریب تها، امام خمینی نے عوام سے درخواست کی تهی کہ بختیار حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی جلوس کیے جائیں، مظاہرے بختیار حکومت کے لئے ریفرینڈم کی حیثیت رکهتے ہیں۔
19 جنوری کی صبح، لاکهوں کی تعداد، امام کی تصویریں لئے ہوئے، بختیار حکومت کے خلاف مظاہروں میں شریک ہوئے۔ اسی دن دوپہر، ملت نے عوامی ایجنڈے کے تحت، بختیار حکومت کو غیر آئینی قرار دیا گیا۔
امام خمینی کی جانب سے 24 جنوری بروز جمعہ کو ایران واپسی کی خبر بهی میڈیا میں سامنے آگئی، جس کے نتیجے میں بختیاری اور اس کے حامیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
اسی لئے اس نے نوفل شیٹا میں امام خمینی کے نام یہ پیغام بهیجا کہ اس وقت آپ کے ایران آنے کیلئے فضا سازگار نہیں ہے، لہذا ایران آنے کی تاریخ کو مؤخر کیا جائے تو یہ آپ کے حق میں بہتر ہوگا۔
امام ایران تشریف لائے، بے نظیر استقبال اور بہشت زہرا(س) میں آپ کی تقریر کہ میں حکومت کے منہ پر طمانچہ رسید کروں گا، یہ سب حکومت وقت کا کام تمام کرڈالا، اور چار دن بعد امام خمینی نے انجینئر بازرگان کو عبوری وزیر اعظم کے طور پر منتخب کیا۔
بختیار ایران سے فرار کرنے کے بعد پیرس کے ایک مکان میں رہایش پزیر ہوا۔