جوانی کے دنوں میں ، مجھے یاد ہے کہ میری آنکھ کچھ کمزور ہوگئی تھی جو ابھی بھی کمزور ہے۔ اس وقت امین الملک (خدا کی رحمت ہو ان پر) آنکھ کا ڈاکٹر تھا۔ میں تہران گیا تاکہ آنکھ کا علاج کراؤں ۔ ایک شخص جو میرا بھی واقف اور ڈاکٹر کا بھی جاننے والا تھا اس نے کہا کہ امین الملک کے پاس جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ (فلاں صاحب نے کہا) فلاں الدولہ کی آنکھ کمزور ہوگئی تھی اور علاج کیلئے یورپ گیا تھا۔ وہاں جس ڈاکٹر کے پاس وہ گیا تھا جس پروفیسر کے پاس وہ گیا تھا اس نے پوچھا کہ کہاں کا رہنے والا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ایران، تہران کا رہنے والاہوں ۔ اس نے کہا تھا کہ کیا وہاں امین الملک نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یا وہ ہے یا میں اس کو نہیں جانتا۔ جیسا کہ وہ صاحب بتا رہے تھے کہ اس نے کہا تھا کہ امین الملک، جیسا شخص ہم سے بہتر ہے۔ ہمارے ہاں اچھے ڈاکٹر ہیں لیکن ہمارے دماغ مغربی ہوگئے ہیں ۔ خود ڈاکٹر حضرات بھی ایسے ہی ہیں ! وہ خود بھی ایسے ہی ہیں جن کے پاس ہی جا کر سنیں تو کہتے ہیں : جاؤ یورپ! یہ اس لئے کہ ان کا دماغ بھی ایسا ہی ہوگیا ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو گم کردیا ہے۔ اپنی صلاحیت کھو دی ہے۔ اپنی حیثیت اور قومیت بھول بیٹھے ہیں ۔ ہم سب نے اپنے آپ کو ضائع کردیا ہے۔
جب تک یہ قوم اس مغربی طرز تفکر سے باہر نہیں نکلے گی ، آزادی حاصل نہیں کرسکتی۔ جب تک ہمارے لکھنے والوں کی کتابیں اس اسلوب پر ہوں گی کہ جو مطلب ہمارا اپنا بھی ہے اس کو بیان کرنے کیلئے فلاں بیرونی شخص کے کلام کو بطور دلیل ذکر کرتے رہیں گے؛ غرض، جب تک آپ اس وابستگی سے باہر نہیں نکلیں گے آپ مستقل نہیں ہوسکتے۔ جب یہ خواتین (آپ کو نہیں کہتا) آپ تو عوام ہیں ۔ ان خواتین کو کہتا ہوں جن کا بس یہی ہم وفکر ہوتا ہے کہ فلاں چیز ہونی چاہیے، فلاں فیشن، یورپ سے یہاں لایا جائے۔ فلاں زینت ادھر کی یہاں بھی رائج ہونی چاہیے۔ جیسے ہی ادھر کوئی چیز رائج ہوتی ہے فوراً یہاں بھی اس کی تقلید شروع ہوجاتی ہے۔ جب تک آپ اس تقلید سے باہر نہیں آئیں گے، انسان نہیں بن سکتے، نہ مستقل ہوسکتے ہیں، اگر آپ مستقل ہونا چاہتے ہو۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی شناخت ایک قوم کی حیثیت سے ہوجائے اور آپ ایک قوم بننا چاہتے ہو تو مغرب کی اس تقلید کو خیر باد کہہ دو۔ جب تک تم لوگ اس تقلید میں رہوگے ،مستقل ہونے کی تمنا نہ کرو۔ جب تک ہمارے یہ لکھنے والوں کی باتیں مغربی ہوں گی، جب تک وہ اس قسم کی تحریروں سے دستبردار نہ ہوں گے، ان کو یہ توقع نہیں ہونی چاہیے کہ ان کے عوام مستقل ہوں گے۔ جب تک یہ نام جو سڑکوں ، دوا خانوں ، کتابوں ، کپڑوں اور دوسری چیزوں پر ہیں ۔ صرف مسجدیں ہیں جن میں یورپی نام نہیں اور وہ بھی اس وجہ سے کہ علماء معمولاً اب تک مغربی طرز فکر کے نہیں رکھتے۔ ورنہ ہر چیز پر یورپی نام رکھ دیاجاتا ۔ وہ لوگ جو لکھتے ہیں وہ بھی مغربی نام رکھتے ہیں اور آپ بھی یہی چاہتے ہو۔ وہ لوگ جو پڑھنا چاہتے ہیں وہ بھی جب تک ایسا نام نہ دیکھیں اس کی طرف توجہ نہیں دیتے۔
{ وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَولِیآؤُہُمُ الطّاغُوت }(سورۂ بقرہ؍ ۲۵۷) وہ لوگ جو کافر ہیں ، وہ خدا کی نعمت کا کفران کرتے ہیں ۔ ان کے سامنے حقائق پوشیدہ ہیں ۔ وہ تاریکی میں ہیں ۔ کیونکہ ان کے سرپرست طاغوت ہیں ۔ طاغوت کا کام کیا ہے؟ { یُخْرِجُہُمْ مِنَ النُّورِ إلَی الظُّلُمات }(سورۂ بقرہ؍ ۲۵۷) نور سے، نور مطلق (نور کل) ہدایت، استقلال، قومیت اور اسلامیت سے باہر نکال کر ظلمتوں میں دھکیل دیتا ہے۔ طاغوت انسان کو ان تاریکیوں میں ڈال دیتا ہے۔
ہم نے اپنے آپ کو گم کردیا، ہم نے اپنے سارے اعزاز ضائع کر رہے ہیں ، اپنی تعلیمات کو فراموش کردیا ہے۔ جب تک یہ گمشدہ چیزیں نہیں ملیں گی، آپ اس وقت تک مستقل نہیں ہوسکتے۔ لہذا ڈھونڈو اور ان کو پیدا کرو۔ ڈھونڈو اور مشرق کی کھوئی ہوئی حیثیت کو پیدا کرو۔ جب تک ہم اس طرز فکر کے ہی رہوگے، جب تک ہمارے لکھنے والوں کا انداز فکر مغربی ہوگا، جب تک ہمارے روشن خیال حضرات مغربی سوچ کے حامل ہوں گے، جب تک آزادی چاہنے والے ہمارے لوگ مغربی آزادی کے خواہاں ہوں گے، مسائل یہی ر ہیں گے ،جو اس وقت ہیں ۔
صحیفہ امام، ج ۹، ص ۳۶۱