سنہ ۱۳۶۶ ھ ش کو ماہ اسفند کے درمیان تقریباً ساڑھے گیارہ بج رہے تھے کہ آقائے انصاری کمرے میں تشریف لائے اور مجھ سے کہا: ڈاکٹر صاحب! آئیے چلتے ہیں امام کی خدمت میں ۔ میں نے جانے کی وجہ ان سے دریافت نہیں کی۔ ہم دونوں امام کی خدمت میں پہنچے۔ امام ؒ کے ہاتھ میں تسبیح تھی۔ ذکر پڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں ٹہل رہے تھے۔ جب ہمیں دیکھا تو تعجب کیا کہ کیا کام پڑگیا ہے کہ ہم یوں عجلت کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں ۔ البتہ آقائے انصاری حقیقت میں امام سے بہت مانوس تھے اور بہت بے تکلف ہو کر امام خمینی ؒسے بات کرتے تھے۔ لیکن اس دن دیکھا کہ وہ باوجودیکہ اچھی طرح بات کر رہے اور امام سے اتنے مانوس ہیں لیکن سر جھکائے ہوئے عاجزی وناتوانی سے بات کر رہے ہیں جس کا مفہوم یہ تھا: شہر کی حالت یہ ہے کہ اکثر لوگ شہر کو چھوڑ کے چلے گئے ہیں یا اگر کوئی رہ گیا ہے تو اس کے گھر میں پناہ گاہ ہے۔ مختلف افراد جو اس بیت شریف میں موجود ہیں ۔ مثلاً میں اور یہ ڈاکٹر صاحب (میری طرف اشارہ کیا) شمع کے گرد پروانہ کی طرح گھومتے ہیں ۔ وہ ان ہوائی حملوں کی وجہ سے آپ کے بارے میں خوف وخطرہ محسوس کر رہے ہیں ۔ ان کی خاطر بھی اگر ہو سکتا ہے تو ہماری بات قبول کر لیجئے اور آئیے کہ ہم آپ کو ایک پر امن جگہ میں منتقل کریتے ہیں ۔ اسی طرح ہمیں مختلف ذرائع سے خبر ملی ہے کہ عراق مختلف جگہوں سے جماران پر میزائل سے حملہ کرنا چاہتا ہے۔ (اس امر کے بارے میں شواہد وقرائن بھی موجود تھے) اب اجازت دیں کہ آپ کو کسی پر امن جگہ شفٹ کردیا جائے۔
امام ؒ نے بھرپور سکون وسنجیدگی سے حاج احمد آقا کے گھر کی جانب اشارہ کر کے فرمایا: ’’یہ احمد بھی اپنی بیوی بچوں کا ہاتھ پکڑ کے لے جانا چاہتے ہیں تو جائیں ‘‘ اس کے بعد ذرا سخت لہجے میں مزید فرمایا: ’’میں کسی بھی صورت میں اس جگہ سے کہیں اور نہیں جاؤں گا‘‘ یہ جو امام نے کہا کہ ’’احمد بھی اپنی بیوی بچوں کا ہاتھ پکڑ کر اگر جانا چاہتے ہیں تو جائیں ‘‘ یعنی یہ کہ تم جو کہتے ہو کہ تم اور ڈاکٹر اور دوسرے لوگ جو پروانے کی طرح میرے ارد گرد جمع ہیں وہ سب جاسکتے ہیں لیکن میں ہرگز اپنی جگہ سے نہیں ہٹوں گا۔
آقائے انصاری جو درحقیقت اپنے مقصد کو حاصل نہیں کرسکے تھے۔ انہوں نے روتے ہوئے اور ذرا تاکیدی انداز سے اس بات کو ایک اور طریقے سے دہرایا اور امام سے گزارش کی کہ ان کی بات کو تسلیم کرلیں ۔ امام ؒ مسکرائے اور فرمایا: ’’انصاری صاحب! آپ اپنے حساب وکتاب میں غلطی کر رہے ہو۔ دوسری بات یہ کہ کیوں جذباتی ہوتے ہو؟ اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھو‘‘ جب امام نے ان کو رو کر التماس کرتے ہوئے دیکھا تو بہت نرم لہجہ میں فرمایا: ’’جاؤ! تم اپنی تجویز اور اپنے نقشہ بنا کر لے آؤ تب میں تم لوگوں سے عرض کروں گا کہ کیا کرنا ہے‘‘ ہم بہت خوش ہوئے کہ امام نے ہماری بات مان لی ہے اور میں نے فرط خوشی میں آقائے انصاری کا ہاتھ چوم لیا اور کہا: اس عرصے میں قم میں سارے بڑے علماء اور بزرگوں نے امام سے درخواست کی تھی کہ کسی پر امن جگہ منتقل ہوجائیں ۔ لیکن امام ؒ نے ان کی بات نہیں مانی تھی۔ اب اچھا ہوا کہ امام نے آپ کی بات سنلی اور راضی ہوگئے ہیں ۔
ابھی دس منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ آقائے سید احمد نے فون کے ذریعہ کہا: آپ لوگ اپنے آپ کو زحمت میں نہ ڈالیں ؛ امام آپ کے عذر کو سننا چاہتے تھے سختی سے آپ کو منع نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے یہ کہہ دیا ہے کہ نقشہ بنا کر لے آؤ! ابھی انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ’’ہرگز میں اس جگہ سے کہیں نہیں جاؤں گا‘‘۔