میں پوچھتا ہوں کہ کیا رسول اﷲ ﷺ کا طریقہ یہی تھا کہ آپ ؐ قرآن مجید کی صرف تلاوت کر کے اسے ایک طرف رکھ دیتے تھے اور حدود وقانون نافذ نہیں کرتے تھے؟ کیا رسول خدا ﷺ کے خلفاء لوگوں سے مسائل بیان کر کے کہہ دیتے تھے، اب ہمارا آپ سے کوئی کام نہیں؟ یا اس کے برعکس تھا، حدود معین کرتے تھے اور تازیانے مارتے تھے اور رجم کرتے تھے، عمر قید کرتے تھے، شہر بدر کردیتے تھے؟ اسلام کے حدود اور دیات کی طرف رجوع کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ان سب کا تعلق اسلام سے ہے اور اسلام ان امور کیلئے آیا ہے، اسلام اس لیے آیا ہے تاکہ معاشرے کو منظم کرے، امامت معاشرتی امور چلانے کی حکومت اور اعتبار ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ اسلام کی حفاظت کریں، یہ فرض اہم واجبات میں سے ہے یہاں تک کہ نماز وروزے سے بھی اہم واجب ہے، یہی وہ فرض ہے کہ جو اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کے انجام دینے میں خون بہایا جائے۔ حضرت امام حسین(ع) سے بڑھ کر کسی کا خون نہیں وہ بھی اسلام کیلئے بہایا گیا، ہمیں یہ معنی سمجھنے چاہیے اور دوسروں کو ان کی تعلیم دینا چاہیے۔ آپ اس صورت میں خلیفہ اسلام ہیں کہ جب لوگوں کو اسلام کی تعلیم دیں اور یہ نہ کہیں کہ چھوڑئیے امام ؑکو آنے دیجئے، کیا آپ کسی وقت کی نماز چھوڑ دیتے ہیں کہ جب امام(عج) آئیں گے تو پڑھ لیں گے؟ اسلام کی حفاظت کرنا نماز سے زیادہ اہم ہے، خمین کے حاکم منطق (وفکر) نہ رکھئے جو کہتا تھا کہ گناہوں کو ترویج دیجئے تاکہ امام(عج) ظہور فرمائیں، اگر گناہوں کو ترویج نہیں دیں گے تو امام ؑظہور نہیں فرمائیں گے، آپ فارغ نہ بہ بیٹھئے بلکہ احکام اسلام کا مطالعہ کیجئے اور حقائق کی اشاعت کیجئے، کتابچہ لکھ کر بخش کیجئے، یہ کام ضرور مؤثر ہوگا، میں نے تجربہ کیا ہے کہ اس میں اثر ہے۔
(ولایت فقیہ، ص ۶۷)