شاہ کی حکومت کی کوشش تھی کہ امام(رح) کو ملک سے باہر جلاوطن کرنے کے بعد،اخبارات میں امام (رح) سے مربوط کوئی خبر نشر نہ ہو، اس طرح حکومت چاہتی تھی کہ ایرانی قوم امام(رح) کو بھولادے ۔لیکن جس دن سالوں بعد امام (رح) کی ایک تصویر کسی روزنامہ میں نشر ہوئی، اس سے یہ ثابت ہواکہ جن سالوں میں امام کی تصویر اور خبر پر سختی کے ساتھ پابندی تھی نہ صرف آپ فراموش نہیں ہوئے بلکہ امام (رح) شاہ کے خلاف ایک بہت بڑ ے مجاہد و مبارز میں تبدیل ہوچکے تھے ۔
پورٹل امام خمینی (رح) کے رپورٹ کے مطابق،انقلاب اسلامی سے پہلے، آیت اللہ خمینی کی تصویر نشر پر پابندی ایک غیر رسمی، غیر قانونی اور غیر تحریر شدہ حکم تھاجس کی پابندی اندروں ملک کے تمام ذرائع ابلاغ پر چوں و چرا کے بغیر لازمی تھی؛ لیکن سیاسی فضاکی آزادی اعلان ہونے کے بعد شاہنشاہی حیات کے آخری دنوں،'' کیہان " جیسے اخبارات کو فرصت ملی کہ آزادی کی خاطر عوام کی جدوجہد کے بار ے میں لکھیں،لیکن روزنامہ کیہان بھی آیت اللہ خمینی کی تصویر نشر کرنے کی غلطی بھولے سے بھی نہیں کرسکتاتھا، جبکہ" کیہان '' اپوزیشن کاحامی تھا، لیکن صرف امام(رح) سے مربوط خبریں (بغیر تصویر) نشر کرنے پر اکتفا کرتاتھا۔
امام خمینی(رح) کی یہ تصویر سالوں بعد ایران میں روزنامہ " کیہان" کے پہلے صفحہ پر 7شہریور 1357(29،اگست 1978)کو شائع ہوئی اور ایران کے سیاسی فضا میں عظیم زلزلہ ایجاد کیا ۔
کئی سال سے امام خمینی(رح) جلاوطن تھے، اس کے باوجود امام واپس ملک لوٹنے کے متعلق حکومتی سطح پر مذاکرات کی خبریں ارد گردسے سنائی دیتی تھی ۔ سات شہریور ۱۳۵۷( ۱۹۷۸) بروز منگل جب روزنامہ کیہان ایک عوامی اورتاثیر گزار ذریع ابلاغ میں تبدیل ہو چکاتھا، ایک بے سابقہ اقدام میں امام خمینی (رح) کی تصویر پہلے صفحے پر چاپ دیا؛ سُرخی’’ ایک حکومتی وفد، آیت اللہ کی واپسی کے لئے بھیجاگیا ‘‘ کی خبر دے رہی تھی ۔
جناب مصطفی مصباح زاده روزنامه كیهان كے بانی كهتے هیں :
’’ میں اس دن دو پهركے دو بجے تك ادار ے میں تها،ان دنوں افواہیں بهت زیاده تهیں ۔ ان میں سب زیاده شائع خبر جو ہر روز مزید پهیل رہی تهی یه تهی كه حكومت آیت الله خمینی كے ساتھ ایران واپس لوٹنے كے بارے میں مذاكره كررہی ہے اسی افواه كے ساتھ ہر روز ایك ہوائی جهاز بغداد جاتاتها اور یه افواه زور پر تهی كه ہوائی جهاز بغداد گیا ہے تاكه امام (رح) كو تهران لائے ۔
كیهان كاخبرنگار اس روز وزیر اعظم ہاوس جاتاہے تاكه اس افواه كے بار ے میں كوئی خبر حاصل كر ے ۔ ہمارا خبرنگار وزیراعظم سے ملتاہے اوران سے سوال كرتاہے كیا یہ سچ ہے كه آج ایك جهاز بعداد گیا ہے تاكه آیت الله خمینی كو تهران لے آئے ؟
وزیراعظم كوئی جواب نهیں دیتے اور مسكراہتے ہیں ۔ خبرنگار وزیراعظم كے اس تبسم كو مثبت جواب لیتے ہیں اور حیران و پریشان كیهان كادفتر جاتا ہے اور اپنا اختصاصی خبر درج کرتا ہے ۔ روزنامه كیهان بهی اس تصور كے ساتھ كه انتہائ خاص خبر شكار كیا ہے اسے بڑ ے آب و تاب كےساتھ نشر كرتاہے اور یوں ملک میں بے سابقه شور و غوغا برپا كرتاہے ۔
اس خبر كاصحیح حصہ یہ تها كه ایك ہوائی جهاز ضرور بغداد جاچكاتها، لیكن آیت الله خمینی (رح)كو لانے نهیں بلكہ ’’ آشور نامی شخص كو واپس لانے جو شهر آبادان كے ’’ركس‘‘ سینما كو آگ لگانے كے جرم گرفتار ہوچكاتها۔‘‘
حقیقت یہ تهی كہ حكومت جو سیاسی فضا آزاد ركهنے پر مجبور ہوچكی تهی، اس بات سے پریشان تهی كہ كهیں امام(رح) كےحامی اور ساتهی شاه كے خلاف جدوجهد اور سرگرمیوں كی باگ دوڑ كو باقاعدہ اپنے ہاتھ میں نہ لیں اور ایرانی اعلی عهداروں كا عراق جانے كا مقصد امام اور ان كے گهرانے پر مزید سختیاں اور پابندیاں بڑہانا تها اور كسی طرح عراقی روسا كو امام (رح) كی سرگرمیاں محدود كے پر قانع كرناتھا، بعد كے دنوں كے اتفاقات نے اس نظریہ كو مزید قوت بخشا،كیوں كہ کچھ دنوں بعد صدام نے امام کو نجف میں نہ رہنے كاحکم دیا اور نجف میں رہنے کی شرط سیاسی سرگرمیوں ختم كرنے بتایا ۔