آیتالله هاشمی رفسنجانی نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں 1987 بروز جمعہ حج بیت اللہ کے دوران مکہ کی سرزمین پر رونما ہونے والے افسوسناک واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے۔ جس میں آل سعود کے گماشتوں نے خانہ کعبہ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے نہتے و بے گناہ حاجیوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا تھا، اور اس حادثے میں بہت سے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بھیٹے ٹھے، 275 ایرانی زائرین ،85 سعودی جس میں سکیورٹی اہلکار بھی تھے اور 45 دوسرے ملکوں کے حجاج کرام شامل تھے۔ اپنی یاداشت میں لکھا ہے۔
« سعودی اہلکاروں کی جانب سے ایرانی حجاج پر حملے کی خبر، ہیڈلاین کی صورت میں میڈیا کی زینت بنی، اور استکباری قوتوں نے اپنی جھوٹی تبلیغات اور پروپیگنڈوں کے ذریعے اس واقعے کو دوسرا رخ دیکر اسے ایرانی حجاج کا دوسرے ملکوں کے حاجیوں کے ساتھ تصادم سے جوڑنے کی پوری کوشش کرتے ہوئے سعودی اہل کاروں کی مداخلت کو ناگزیر قرار دیا تھا، جبکہ یہ امریکہ کی سازش تھی جسکو سعودی عرب عملی جامہ پہنا رہاتھا۔
اس افسوس ناک حادثے کے متعلق خبروں کے میڈیا میں آتے ہی سعودی عرب سے رابطہ کیاگیا، آیت اللہ کروبی جو حضرت امام خمینی کا نمائندہ تھے، نے اس خبر کی وضاحت کرتے ہوے کہا: اب تک اکیاون افراد کی لاشیں ہم تک پہنچ چکی ہیں اور کچھ لاشیں سعودیوں کی تحویل میں ہے اور سعودی حکومت زخمیوں سے ملنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے ۔
مجمع تشخیص مصلحت نظام کے صدر آیتالله هاشمی رفسنجانی نے 2 اگست 1987 سے متعلق سربراہان مملکت کی جانب سے انجام پانے والے فیصلے کی جانب اشارہ کرتے ہوے اپنی یادداشت میں مزید لکھا ہے: " میں نے صبح سویرے پارلمینٹ کارخ کیا۔ جبکہ خبر نگاروں نے اپنی رپورٹوں میں مکہ مکرمہ میں رونما ہونے والے واقعے کو اخبارات کی شہ سرخیوں میں جگہ دی تھی اور خلیجفارس میں امریکی ذلت کو دوسرے نمبر پر قرار دیاتھا۔
اسی ضمن میں آل سعود کے اس وحشیانہ اقدام کے خلاف لوگوں نے بڑے پیمانے پر مظاہرہ کرتے ہوئے پارلمینٹ کے باہر اجتماع کیا اس اجتماع میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی جس میں حکومتی اہلکار بھی شامل تھے اور اس اجتماع سے میں نے ہی خطاب کیاتھا۔
اسی رات حضرت آیتالله خامنهای کے گھر سربراہان مملکت کی میٹینگ بھی تھی اور اس میٹینگ میں سعودی جارحیت کے مقابلے میں ہمارے موقف سے متعلق بحث ہوئی جس میں یہ طے پایا کہ آل سعود کی شدید الفاظ میں کرتے ہوے ایسا موقف اختیار کیا جاے جو جنگ پر منتہی نہ ہو۔