ایک دن اٹلی کی ایک خاتون جس کا پیشہ معلمی تها اور وہ عیسائی تهی۔ انہوں نے امام اور آپ کے مشن سے بے انتہا محبت ودلچسپی سے بهرا ہوا خط ایک ہار کے ساته امام کیلئے بهیجا تها۔ اس نے لکها تها کہ یہ ہار جو میری شادی کا تها اور اسی وجہ سے اس کو بہت چاہتی تهی۔ یہ اس بات کے ثبوت کے طورپر آپ کی خدمت میں بهیج رہی ہوں کہ میں آپ اور آپ کے مشن کو چاہتی اور اشتیاق رکهتی ہوں۔ ہم نے ایک عرصے تک ضبط کر کے رکها اس خیال سے کہ شاید امام یہ چیز قبول نہیں کریں گے۔ آخرکار ترجمہ کر کے اصل خط اور اس کا ترجمہ اور ہار سب کو لے کر امام کی خدمت میں رکه دیا۔ جب امام کی خدمت میں اس خاتون کا خط پیش ہوا تو ہار بهی ہمارے ہاتهوں سے لے لیا اور اپنے قریب کی میز پہ رکه دیا۔
دو تین دن بعد اتفاق سے دو تین سال کی ایک بچی لائی گئی جس کا باپ محاذ جنگ میں مفقود ہوگیا تها۔ امام کو جب یہ پتہ چلا تو فرمایا: ’’ابهی فوراً اس بچی کو اندر لے آؤ‘‘ جب وہ بچی اندر لائی گئی تو اس کو اپنے زانوں پر بٹهایا اور ان کے چہرے کو اپنے چہرے سے لگایا اور اس کے سر پہ ہاته رکها۔ ایسا سلوک کیا کہ خود اپنے بچہ کے ساته ویسا برتاؤ کرتے ہوئے امام کو دیکها نہیں گیا تها۔ کچه دیر تک اس بچی سے اسی حالت میں باتیں کرتے رہے۔ لیکن ہم امام کی باتوں کو سن نہیں پاتے تهے جبکہ ہمارے اور امام کے درمیان ڈیڑه میڑ سے کم کا فاصلہ تها۔ بچی جو افسردہ واداس تهی آخر ایک وقت امام کی گود میں ہنسنے لگی۔ اس وقت امام نے اس ہار کو جسے اٹلی سے اس خاتوں نے بهیجا تها اٹها کر بچی کے گلے میں پہننا دیا۔ بچی خوشی میں پهولے نہیں سماتی تهی اور اسی خوشی کے ساته امام کی خدمت سے رخصت ہوگئی۔