اسلامی انقلاب سے پہلے ایران کی فوج امریکہ کے زیر اثر تهی۔ ملک کی عسکری اور دفاعی صلاحیت ایرانی عوام کے قومی وقار کی سلامتی اور امن و امان کی برقراری کے بجائے مغربی مفادات کے تحفظ کے لئے صرف ہوتی تهی۔ فوج کی اہم ضروریات مغربی ممالک سے درآمد کی جاتی تهیں اور ایرانی فوج کے اندر مغرب کے ہزاروں عسکری صلاح کار اور مشیر ہوتے تهے۔ اسلامی انقلاب کے ساته ہی ملک کا عسکری ، دفاعی اور امنیتی سسٹم بالکل تبدیل ہو گیا اور افواج اسلامی جمہوریہ کے ساته ساته سپاہ، بسیج اور اسلامی انقلاب کی کمیٹیاں جیسی عوامی ادارے وجود میں آئے۔ دفاع مقدس اور اس کے بعد کے تجربات کی وجہ سےاسلامی جمہوریہ آج دفاعی صلاحیت کے حوالے سے بہت بڑے دفاعی مقام پر پہنچ گئی ہے۔ ملک میں عسکری خصوصا دفاعی آلات کے حوالے سے پیشرفت اور ترقی اس منزل پر ہے کہ مختلف شعبوں میں اپنی مسلح افواج کی ضروریات کو پورا کرنے کے ساته ساته ایران فوجی وسائل برآمد کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے ۔ اسلامی جمہوریہ کی عسکری اور دفاعی صلاحیت نے اس وقت ایران مخالف فوجی دهمکیوں کو کهوکهلا کر دیا ہے اور عالمی تسلط پسندوں سے ایران پر فوجی حملے کی جرائت چهین لی ہے۔ امام خمینیؒ ،ایرانی قوم کی باہمی وحدت و ہمدلی اور خدا وند متعال کی لایزال معنوی قدرت پر اعتماد جیسے طاقت کے اصلی سرچشمے پر بہت تاکید کرتے ہوئے بهی ظالموں اور ہٹ دهرم لوگوں کی ازلی دشمنی اور لالچ کے مقابلے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ کے عنوان سے مسلح افواج کو قوی بنانے سے بهی غفلت نہیں برتتے:
" صلح کو ماننے اور اس پر عمل پیرا ہونے سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ہم ملک کی عسکری و دفاعی بنیاد کو مستحکم کرنے اور اسلحہ سازی کی توسیع سے بے نیاز ہو گئے؛ بلکہ دفاعی صلاحیت سے متعلق آلات اور اسلحوں کا استحکام اور ان کی توسیع ،تعمیر نو کے ابتدائی اور اصلی مقاصد میں سے ہے اور ہمیں اپنے انقلاب کی اصلیت پر توجہ دیتے ہوئے ہر وقت اور ہر زمانے میں عالمی طاقتوں اور ان کے پٹهوؤں کی طرف سے دوبارہ جنگ اور تجاوز کے احتمال کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ "( صحیفہ امامؒ، ج۲۱، ص ۱۵۸)