اسلام کو نئی زندگی بخشی
گزشتہ دوسو برسوں سے سامراجی مشینریوں نے یہ کوشش کی کہ اسلام کو فراموش کردیا جائے! برطانوی وزیر اعظم نے دنیا کے سامراجی سیاستدانوں کے اجتماع میں اعلان کیا تها:
ہمیں چاہئے کہ اسلامی ملکوں میں، اسلام کو گوشہ نشین کردیں!
اس سے پہلے بهی اور اس کے بعد بهی اس کام کے لئے بے پناہ پیسے خرچ کئے گئے تاکہ پہلے مرحلے میں اسلام، لوگوں کی زندگی سے دور رکها جائے! اور دوسرے مرحلے میں لوگوں کے دل و دماغ اور ذہنوں سے بهی نکل جائے! کیونکہ سامراجی طاقتوں کو یہ معلوم تها کہ یہ دین بڑی طاقتوں کی لوٹ کهسوٹ اور اسی طرح سامراجی طاقتوں کے تسلط پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اس حالت میں، امام راحل(رہ) نے اسلام کو دوبارہ زندہ کیا، اسلام کو انهوں نے لوگوں کے ذہنوں، بلکہ دلوں اور عملی میدان میں، نیــز دنیا کے سیاسی میدان میں اتارا۔
مسلمانوں کو عزت و وقار بخشا
امام خمینی(رح) کی تحریک کے نتیجے میں پوری دنیا کے مسلمانوں نے عزت و سربلندی کا احساس کیا اور اسلام محدود بحثوں سے نکل کر باقاعدہ سماجی اور سیاسی میدان میں وارد ہوا۔
اس سے پہلے اجنبی ملکوں میں جہاں مسلمان اقلیتی شمار ہوا کرتا تها، ایک مسلمان کبهی بهی خود کو دوسروں کے سامنے مسلمان ظاہر نہیں کرتا! اغلب اس ملک کے رسم ورواج کی زد میں اپنی ثقافت ودیانت بلکہ قومی رسم ورواج بهی کهو بیٹهتا! بلکہ اکثر لوگ اجتماع میں، معاشرے میں وہاں کے مقامی نام ونشان اپنے لئے منتخب کیا کرتے تهے!! اگرچہ اندرون خانہ، بچوں کے نام اسلامی ناموں سے پکارا جاتا تها!! لیکن گهر سے باہر ہرگز یہ جرات نہیں ہوتی تهی اس لئے کہ اپنے اندر احساس کمتر اور شرمندگی محسوس ہوتا تها!!
لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، لوگ بڑے فخر کے ساته اپنا اسلامی نام ظاہر کرتے ہیں اور اگر ان سے پوچها جائے کہ آپ کون ہیں؟ تو فخر و وقار کے ساته پہلے اسلامی نام بتاتے ہیں۔
بنابریں، امام راحل(رہ) نے جو بــڑا اور اہم کارنامہ انجام دیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو پوری دنیا میں عزت کا احساس ہونے لگا، وہ اپنے مسلمان ہونے اور اسلام کی پیروی کرنے پر بغیر کسی شرمندگی کے، فخر کرنے لگے۔
مسلمانوں کو اتحــــاد کی ضرورت کا احساس دلایا
آج تمام مسلمان ایشیا میں ہوں یا افریقہ میں، یورپ میں ہوں یا امریکہ میں بہرحال، دنیا کے کسی کونے میں بـسر کر رہے ہوں تو یقیناً اس بات کا احساس کر رہے ہیں کہ وہ امت اسلامیہ کے نام کے ایک بڑے عالمی معاشرے کا حصہ ہیں، جبکہ اس سے قبل مسلمان جہاں بهی ہوتے اس کے لئے امت مسلمہ کی کوئی اہمیت نہیں تهی یـا کہ زیادہ سے زیادہ ایک نظر دیکه کر صرف دل میں اظہار ہمدردی کرتے اور اپنی روزمرہ زندگی کی طرف چلے جاتے!
امام خمینی(رح) نے مسلم امہ کے تئیں شعور کا احساس جگایا جو عالمی استکبار کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کے دفاع کے لئے سب سے بـــڑا وسیلہ ہے۔
امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے علاقے کی بدعنوان حکومت یعنی ایران میں شاہی حکومت کا خاتمہ کیا۔ ایران علاقے اور مشرق وسطی میں استکبار کا سب سے بـڑا اور مضبوط قلعہ بن چکا تها اور یہ مضبوط قلعہ ہمارے امام خمینی بت شکن(رح) کے دست توانا سے امت محمدی(ص) کے مصالح ومفادات کے حق میں تسخیر کیا گیا اور اس ملبے کو اسلامی اصولوں پر تعمیرنو فرمایا کر حکومت اسلامی جمہوریہ کی بنیاد رکهی جو عالم اسلام ومسلمین کیلئے واقعی مضبوط قلعہ اور پشت پناہی کے کردار ادا کر رہی ہے اگرچہ اغیار اور طاغوتیوں کے ذائقہ سے اور ان کے چاہت سے بلکل مختلف ہی کیوں نہ ہو! ان کے طرح طرح کی دهمکیوں کے باوجود امام راحل(رح) نے معجزاتی طورپر اس افسانہ کو حقیقت کا لبادہ پہنایا۔
اب اسلامی انقلاب کے بعد جب اسلام کی حاکمیت ایران میں جڑ پکڑ لی تو پوری دنیا میں اسلامی تحریکوں کی نگاہ بلکہ مستضعفین کے قیام، نومولود اسلامی جمہوریہ ایران پر مرکوز ہوئی اور حال حاضر میں اسلامی آئیڈیالوجی حریت پسندانہ قیام کی بنیاد بن چکی ہے، حال آنکہ اس سے قبل بائیں بازو کے افکار ونظریات محور عمل رہا ہے۔ آج عالم اسلام کے گوشہ گوشہ میں کوئی بهی تحریک چلاتا ہے اور سامراجی نظام کے خلاف فریاد بلند کرلیتا ہے تو اس کا سرچشمہ اور ریشہ اسلام ہی ہوتا ہے اور وہ اسلامی تعلیمات اور اصولوں کو اپنے سامنے رکهتے ہوئے اپنے کام اور فکر کی بنیاد بنا دیتا ہے۔
اخلاقی اصولوں کی رعایت اور غلط عقائد پر خط بطلان
یہ بات یقینی ہے کہ جو لوگ سماج کے اعلی مناصب پر فائز ہوتے ہیں ان کا طور طریقہ میں بهی کچه نہ کچه اثر پڑ جاتا ہے، غرور، تکبر، عیش ونوش کی زندگی، محروم اور بے کس لوگوں کو بهلانا وغیرہ وغیرہ، یہ سب ممکنہ طورپر ہر شخص پر عائد ہوسکتا ہے۔ لیکن اس دور میں اعلی حکام اپنے لئے اس کو اپنی سرکاری زندگی کا لازمہ سمجهتے ہیں! دنیاداروں نے بهی اسی مسئلہ کو تسلیم کر لیا ہے کہ جو لوگ اعلی منصب پر فائز ہیں ان کا یہ سب حق ہوتا ہے! یہاں تک کہ کل کا انقلابی رہنما بهی جو اس سے قبل، خیموں اور قناتوں میں یا قیدخانوں اور مخفی گاہوں میں روپوش زندگی بسر کرتے تهے وہ بهی جیسے ہی حکومت میں آتے ہیں ان کا رہن سہن تبدیل ہوجاتا ہے! اور ان کے حکومتی انداز بهی بدل جاتے ہیں اور شاید ان سے پہلے کے حکمرانوں جیسے سلوک اپنائے!
یہ سب ہماری اپنی چشم دید ہے، آپ لوگوں کیلئے بهی یہ کوئی نئی بات نہیں ہونی چاہئے، تعجب کی بات بهی نہیں ہے۔
امام خمینی(رح) نے اس طرح کے نظریات وعقائد کو غلط قرار دیا اور یہ ثابت کردیا کہ کسی قوم اور مسلمانوں کے محبوب قائد زاہدانہ زندگی کے مالک بهی ہو سکتے ہیں اور سادہ زندگی بهی گزار سکتے ہیں۔ عالیشان محلوں کے بجائے ایک امام بارگاہ میں اپنے ملنے والوں سے ملاقات کرسکتے ہیں۔ انبیاء کی زبان، اخلاق اور لباس میں لوگوں سے مل بهی سکتے ہیں۔ اگر حکام اور حکومتی عہدیداروں کے دل، نور معرفت وحقیقت سے روشن ہوتے ہیں تو ظاہری چمک دمک، عیش وعشرت کی زندگی، تکبر و غرور اور اس جیسی دیگر تمام باتیں ان کی زمامداری کا جزء نہیں سمجهی جائیں گی۔
امام خمینی(رہ) کے معجزات میں سے ایک یہ تها کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں بهی اور جب آپ ملک اور قوم کے اعلی ترین رہبر تهے، اس وقت بهی نور معرفت وحقیقت ان کے پورے وجود میں جلوہ نما تها۔
اسی سیر وسلوک اور عارفانہ، زاہدانہ انداز زندگی نے ایران میں کئی سالوں کے فرد واحد کی مطلق العنان اور استبدادی حکومت کا خاتمہ کے ذریعے بنا، وہ حکومت جو سالہا سال ایرانی قوم کو ایک کمزور قوم میں تبدیل کر کے رکه دیا تها، اس قوم کو جو صدر اسلام کے بعد سے پوری تاریخ میں اس کا شاندار علمی اور سیاسی ماضی تها! غیر ملکی طاقتوں نے چاہے انگریزوں کا ہوں یا تو روسوں کا، امریکیوں کا ہوں یا تو دوسری اجنبی حکومتوں کا، یہ سب ہماری قوم کی تحقیر کی، ہماری قوم کو بهی یہ یقین ہوگیا تها کہ وہ بڑے بڑے کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت اور استعداد نہیں رکهتی!! ان کا قومی وقار چهین لیا گیا تها اور اس کی عزت نفس کا خون کردیا گیا تها لیکن ہمارے امام(رہ) نے ایران کے عوام میں قومی افتخار اور عزت نفس کو دوبارہ زندہ کردیا۔
آج ہماری قوم مشرق و مغرب کی مشترکہ سازشوں اور اپنے خلاف کسی بهی طرح کی دهونس اور دهمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتی۔
ہمارے جوان اس بات کا احساس کر رہے ہیں کہ وہ خود اپنے ملک کی تعمیر وترقی میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔
عزت نفس کا یہ احساس اور یہ خود اعتمادی اور حقیقی قومی افتخار، امام خمینی(رح) ہی نے قوم میں دوبارہ زندہ کیا ہے۔
آپ نے ثابت کیا کہ مشرق اور مغرب کے بلاکوں سے فاصلہ بر قرار رکهنے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔
لوگ یہ نہیں سمجه پا رہے تهے کہ کوئی قوم کیسے مشرق سے بهی خود کو الگ رکهے اور مغرب سے بهی خود کو الگ رکهے اور دونوں سے بیزاری کا اظہار کرے اور پهر اپنے پیروں پر کهڑی بهی رہ جائے؟
مگر امام خمینی(رح) نے یہ سب کر دکهایا اور اس نکتہ کو ثابت کردیا کہ مشرق و مغرب کی طاقتوں پر انحصار کئے بغیر بهی زندہ رہا جاسکتا ہے اور عزت و آبرو کے ساته زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
اللہم انصر الاسلام والمسلمین، واخذل من اراد السوء بهما
اللہم عجل لولیک الفرج واجعلنا من خیر اعوانہ وانصارہ ۔ آمین رب العالمین
شکریہ