سوال: قرآن اور سیرت ِنبی(ص) نے ان مخالفین کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جنہوں نے اسلحہ نہیں اٹھایا؟
جواب: پیغمبر اسلامؐ کے زمانے میں مخالفین یا تو مشرکین تھے اور بعض ایسے غیر مسلم تھے جو آسمانی کتابوں کے معتقد تھےکیونکہ اس وقت زیادہ تر مسئلہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا تھا۔اس زمانے میں مسلمان اقلیت اور ان کے دشمن اکثریت میں تھے اسی وجہ سے ان کے خلاف پیغمبر اکرمؐ کی جنگیں ، آپؐ کی دعوت کی مخالفت اور مسلمانوں پر ان کے حملہ اور ہجوم کی وجہ سے تھیں اسی بنا پر اگر کوئی شخص یا قبیلہ مسلمانوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتا تھا نیز پیغمبرؐ کی دعوت میں بھی کوئی رکاوٹ ایجاد نہیں کرتا تھا تو طبیعی طور پر مسلمانوں اور ان کے درمیان کسی طرح کی جنگ رونما نہیں ہوتی تھی۔لہذا اگر مخالفت سے مراد وہی مشرکین اور غیر مسلم ہوں تو ان کے درمیان جنگ و جہاد مذکورہ دلائل کی وجہ سے رونما ہوتی تھی ۔ حملہ مشرکین کی طرف سے ہوا کرتا تھا یا یہودیوں کی طرف سے جو پیمان شکنی کرتے ہوئے انہیں دکھ و تکلیف پہونچایا کرتے تھے ، اور اگر مخالفت سے مراد سیاسی مخالفت ہو تو اس طرح کی چیز پیغمبر اسلامؐ کے زمانے میں واضح طور پر نہیں ملتی اور اگر اس سے مراد وہ لوگ ہوں جو منافق تھے تو پیغمبرؐ نے ان کے خلاف کبھی بھی جنگی کاروائی نہیں کہ بلکہ قرآن اور پیغمبرؐان کی بیداری اور مسلمانوں کو خبر دار کرنے کے لئےان کا موقف واضح کرنے کے لئے کوئی قدم اٹھاتے تھے اور اگر کوئی ایسی بات کرتا یا ایسا نظریہ بیان کرتا جو پیغمبرؐ کی نظر یہ کے مخالف ہوتا تو آپؐ کی جانب سے اس کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں ملتی۔
قرآن مجید نے بھی مشرکین کے خلاف احکامِ جہاد اور قوانین اور مسلمانوں کے دو گروہوں درمیان ٹکراؤ کے بارے میں حکم دیا ہے کہ ان کے درمیان صلح ایجاد کی جائے اور اگر ایک گروہ نے صلح کا راستہ اختیار نہ کیا اور اپنی سرکشی جاری رکھی تو تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے کہ اسے صلح و گفتگو پر تیار کیاجائے لیکن موجودہ دور کے مخالفین کے بارے میں قرآن میں کوئی خاص حکم نہیں آیا ہے۔