امام خمینی(رہ) برسہا برس کی جلاوطنی اور ہزاروں کلومیٹر کے فاصلہ پر رہنے کے باوجود تحریک کو اپنے تحت نظر رکها۔ شاہ کی شہنشاہیت کو بچانے کے لئے تمام تر حربے امام خمینی(رہ) کی تدابیر کے آگے ماند پڑ رہے تهے۔ چاہے وہ خود ایران سے متعلق افراد کے رہے ہوں یا پهر دیگر ممالک کی پالسیاں۔ امام امت کے پیغامات، آپ کی تقاریر اور انٹرویو سب کے سب بعد والے مراحل میں انقلاب کی کامیابی کے ضامن قرار پا رہے تهے اور انہیں کے سبب دشمنوں کی سازشیں ناکام ہو رہی تهیں۔
اسلامی انقلاب کے جن خصوصیات کی جانب ۱۵ خرداد ۱۳۴۲ ہجری شمسی (5جون 1963ء) سے قبل اور انقلاب کی کامیابی کے بعد بلکہ تا دم رحلت امام خمینی(رہ) تاکید فرماتے تهے؛ وہ انقلابی سماج میں اخلاقی اور معنوی اقدار پر خصوصی توجہ تهی۔ امام خمینی(رہ) کی یہ تحریک قبل اس کے کہ حکومت کے خلاف ایک سیاسی اقدام ہوتی؛ سماج پر حاکم اقدار میں ایک واقعی انقلاب تهی۔
۱۹ دی ماہ ۱۳۵۶ ہجری شمسی (9 جنوری 1978ء) سے جب انقلاب کی کارکردگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور انقلاب کے سیاسی اہداف کے لئے جوانوں کے علاوہ سماج کے دوسرے طبقات کے افراد نے بهی بڑه چڑه کر حصہ لینا شروع کیا تو عین ممکن تها کہ انقلاب کی سیاسی پالسیوں کے سبب اخلاقیات اور معنویات زیر سوال چلے جاتے، بالخصوص اس صورت میں کہ جب متعدد سیاسی ٹولیاں اسلامی تحریک کی اخلاقی اور معنوی تاکید پر ہرگز پائبند نہ تهیں یا یہ کہ انہوں نے در حقیقت اسلام کی آئیڈیولوجی کو قبول ہی نہیں کیا تها اور وہ اس فرصت سے فائدہ اٹها کر عوام کے قیام کی گفتگو کرتے۔ اسی لئے امام امت نے اسلامی تحریک کی قیادت سنبهالنے کے ساته ساته جگہ جگہ پر حسب ضرورت ان انحرافات سے بچنے کی خاطر ضروری ہدایات دینے کا کام جاری رکها جو کسی بهی وقت غیر متدین پارٹیوں اور ٹولیوں کی جانب سے اس تحریک میں اپنی جڑیں مضبوط کر سکتے تهے۔ اسی کے ساته امام بزرگوار نسلوں کی تربیت کے بارے میں گفتگو کرتے کہ جنہیں کل انقلاب و تحریک کی کامیابی کے بعد اس عظیم ذمہ داری کو سنبهالنا ہوگا۔
اسی لئے انقلاب کی سیاسی سرگرمیاں جب اپنے شباب پر تهیں، امام خمینی(رہ) نے اپنی اس تقریر {صحیفه امام، ج4، ص29-36} اور دیگر بہت ساری تقاریر میں اپنے بیانات کا اصل محور ومرکز اخلاقی اقدار پر خصوصی توجہ دینا قرار دیا ہے۔ آپ موت کے بعد آنے والے زمانہ کی حقانیت، آخرت میں اعمال کا دقیق حساب و کتاب اور اعمال کا بعینہ مجسم ہونے کا ذکر کرتے ہوئے اضافہ فرماتے ہیں:
اگر آپ نے ابهی سے اپنی فاسد شہوتوں پر ابهی سے کنٹرول نہیں کیا؛ شہوتوں سے بطور مطلق نجات حاصل نہیں ہونے والی ہے۔ یہاں یعنی دنیا بهی آباد کیجئے اور وہاں یعنی آخرت بهی تعمیر کیجئے۔ خدا نخواستہ آپ اپنی تمام تر طاقتوں کو ان بیجا اور فاسد خواہشات پر خرچ نہ کر بیٹهیں، آپ اپنی تمام تر طاقتوں کا بیجا مصرف نہ کیجئے، صرف اس دنیا کے اسیر بن کر نہ رہ جائیے۔
(صحیفه امام؛ ج4،ص30ـ32ـ33)
امام امت اس کے بعد دین اسلام کی جامعیت اور اس دین کے ذریعہ انسانوں کی تمام تر مادی اور معنوی ضروریات کو پورا کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور اپنی اختتامی گفتگو کے دوران ایرانی عوام کی حقانیت اور ایران سے باہر مقیم اسٹوڈنٹس اور عوام کا ان کے ساته رہنے پر تاکید کرتے ہیں۔
امام خمینی(رہ) کی دوسری تقریر ۲۴ /مہر ۱۳۵۷ ہجری شمسی (16 اکتوبر 1978ء) بروز دوشنبہ اس وقت ہوئی کہ جب فرانس کے نیوز پیپر نے امام کے گهر کے چاروں طرف سخت حفاظتی انتظام کے سلسلہ میں ایک رپورٹ شایع کی تهی۔
الیزہ محل کے ایلچیوں نے، پیرس میں امام کی سکونت پر پہلے ہی سے فرانس کی حکومت کی مخالفت کی خبر آپ کو سنا دی تهی۔ امام راحل نے کچه دوسرے ان سفراء سے جو فرانس کے صدر مملکت کی طرف سے یہ پیغام امام تک پہنچانے آئے تهے کہ آپ کسی بهی طرح کے سیاسی اقدام سے پرہیز کیجئے، اس وقت امام نے فرمایا تها: ہم خاموش نہیں بیٹه سکتے اور اگر ضرورت پیش آئی تو سفر کریں گے اس ائیرپورٹ سے اس ائیرپورت پر جائیں گے تا کہ ایرانی عوام کے قیام و انقلاب کی حقانیت پوری دنیا تک پہنچا سکیں۔
(تقویم تاریخ انقلاب اسلامى ایران، ص 153)