ایک روز اسماعل بابا کے ساته استاد خانم مشایخی کے گهر سے واپس آ رہے تهےکیا دیکهتے ہیں کہ گلیاں اور سڑکیں عجیب منظر پیش کررہی تهیں دکانوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے، گلیاں سنسان و ویران! ہم نے اسماعیل بابا سے پوچها: آج کیا ہوا ہے؟ وہ بولے: آہستہ بولو، کچه نہیں ہوا!! جب گهر پہنچا بابا اسماعیل نے کہا: اگر گلی میں خمینی کا نام زبان پر لاتے تو فورا شاہ کے سپاہیوں کے ہاتهوں پکڑے جاتے۔ آیت اللہ خمینی گرفتار کیے جاچکے ہیں، آج لوگوں نے خمینی کے حق میں جلوس نکالا تو شاہ کے سپاہیوں نے ان پہ گولی چلا دی جس سے بہت سے زخمی اور ایک بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیاہے۔
اگلے دن استاد کے گهر انہی واقعات کی باتیں ہو رہی تهیں۔ خانم استاد کی ایک ہمسایہ خاتون پریشانی کے عالم میں استاد سے بہت آہستہ بات کررہی تهی کہ شاہ نے پارلیمنٹ سے بل کی منظوری کے بارے میں کہا ہے اور آیت اللہ خمینی نے دوبارہ شاہ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک اسلامی ملک کے داخلی مسائل میں امریکہ کیوں مداخلت کر رہا ہے!!
استاد نے کہا: درست تو ہے مگر وہ ہم سے کہتے ہیں: حق کی بات نہ کہو ورنہ سر چلا جائے گا !!
اس خاتون نے کہا: خمینی صاحب کہتے ہیں: حق بات کہو سر جاتا ہے تو جانے دو!!
جب گهر پہنچی تو دوڑتی ہوئی اپنے بهائی جواد کے پاس گئی اور ان سے کہا کہ ان ساری باتوں کی وضاحت کریں۔ بهائی جواد نے کہا: آغائے خمینی کہتے ہیں کہ یہ کیسا قانون ہے کہ ایران میں اگر ایک امریکی کتا، بادشاہ کی گاڑی کے نیچے آ کے مر جائے تو بادشاہ کی پوچه گچه ہو گی مگر ایک امریکی کی گاڑی کے نیچے اگر شاہ ایران آ کر مر جائے تو کوئی باز پرس نہیں ہو گی!!
اقلیم خاطرات، فاطمہ طباطبائی