ڈاکٹر فتحی یکن کا کہنا تہاکہ امام کے مکتب فکر کی نقطہ نظر کو واضح کرنے کے لئے ہم کو بیسویں صدی سے اب تک کے اسلامی تحریکوں پر چاہے وہ سرسری ہی کیوں نہ ہو ایک نظر ڈالنی ہوگی، کیونکہ اسلام اس صدی میں بہت سے مکاتب کی طرف جهکاو رکهنے اور فکری طرز عمل کی گواہ تهی لیکن ہم ان مکاتب اور فکری طرز عمل کا ان دو راستوں (خواص اور عوامی طرز حکومت) کے ساته قرب اور دوری اور اس کے نقطہ نظر اورصورت حال کے علاوہ بحث کا ارادہ نہیں رکهتے، اور اس طرح وہ مکاتب فکر جن کی منصوبہ بندی مکمل نہیں تهی، وہ بهی ہمارے بحث کےدائرہ کار سے خارج ہونگے۔
ان مسائل کے تناظر میں آپ تین بنیادی محوروں کی شناخت کرسکتے ہیں جو کہ تین مکاتب فکر کی حکمت عملی پر مبنی ہیں:
پہلا مکتب: کہ جو خواص اور عوامی طرز حکومت کو نزدیک کرتی ہے، اس مکتب کو امام(حسن البناء) نے کچه اصلاح پسند مکاتب فکر سے جن میں سید جمال الدین اسد آبادی، محمد عبدہ، رشید رضا کی مکاتب شامل ہیں اس کی بنیاد ۴۰ کی دہائی میں رکهی تهی۔
دوسرا مکتب: انتخابی نقطہ نظر اور خواص کی حکمرانی کا نظریہ جس کو سید قطب نے ۶۰ کی دهائی میں اس وقت پیش کیا جب اسلامی تحریکیں سخت مشکلات کی شکار تهی، کہ اس سانحے کی گہرائی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہے مصر کی حکومت اور برطانوی فوجی ادارے دونوں کہ جنہوں نے سارے امور سنبهالے ہوئے تهے نے اس کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے ایک ہوئے تهے۔
تیسرا مکتب: جس کو ہم یہاں اپنی بحث کے آغاز کا مقدمہ قرار دے سکتے ہیں، وہ (علماء اور عوامی) مکتب ہے، انقلاب اسلامی کا خاکہ اور اس کا منصوبہ اور بالخصوص اس اسلامی انقلاب کے رہبر کے خیالات کی بنیاد امام خمینی نے رکهی، یہ مکتب فکر عوام اور لوگوں کی اسلامی حکومت بنانے میں فعال شرکت کرنے اور کردار ادا کرنے پر اور علماء کی طرف سے تحریک اور لوگوں کی رہبری کے لئے قیام کرنے کی ضرورت پر یقین رکهتی ہے۔
امام خمینی کی اسلامی حکومت پر گفتگو
اس بحث کو جاری رکهتے ہوئے امام خمینی کے اسلامی طرز حکومت کے مسائل اور موضوعات پر بعض اقوال نقل کرتے ہیں:
امام نے فرمایا: ہم تمام اسلامی ممالک کو اپنے ہی ملک کی طرح سمجهتے ہیں سب ممالک اپنی جگہ پر ہوں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ جو چیز ایران میں واقع ہوئی اور جو بیداری ایران میں واقع ہوئی ہے اور جس طرح خود انہوں نے ظالموں سے نجات حاصل کی ہے۔۔۔ اور اپنے وسائل کو ان کے ہاتهوں سے آزاد کروایا ہے ان سب ممالک اور اقوام میں بهی اسی طرح ہو۔
اور فرمایا: ایران کا اسلامی انقلاب اللہ کے فضل سے پوری دنیا میں پهیل رہا ہے اور انشاء اللہ پهیلے گا، اور شیطانی قوتیں رسوا ہو جائیں گی۔
امام نے فرمایا: طاغوت یعنی غیر منصفانہ سیاسی قوتیں جن کا قبضہ پورے اسلامی ملک پر برقرار ہے کا خاتمہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
اور فرمایا: ہمارے پاس کوئی انتخاب نہیں اس کے علاوہ کے کرپٹ اور بدعنوان حکومتوں اور اس کو پهیلانے والوں کو ختم کریں اور ان بدعنوان غدار اور ناجائز اور ظالم حکومتوں کا تختہ الٹ دیں۔
امام نے اس کے متعلق فرمایا: جو کوئی بهی کہے کہ اسلامی حکومت کی تشکیل ضروری نہیں وہ اسلامی احکام کو اجرا کرنے کی مخالفت کرتا ہے اور اسلام کے احکام کی جامعیت اور ابدیت سے انکار کرتا ہے (اس فکر کو رکهنے والوں میں علی عبدالرزاق اور تمام مستشرقین ہیں)
امام یقین رکهتے تهے کہ ہم – یعنی فقہا – مومن اور فاضل نسل کی پرورش اور تربیت کے لئے مناسب ماحول فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں تاکہ ستمگروں کی حکومت کا تختہ الٹ سکیں۔
امام نے فرمایا : مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قیام کریں آخر میں انہیں ہی کامیابی ملے گی اور امریکہ اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔