جب سال ۱۴۴۲ میں انقلاب کا آغاز ہوا، تو امام رات اور دن میں صرف دو گهنٹے درس دیتے، اور اس دو گهنٹے کے درس کے لئے آپ پانچ گهنٹے کا مطالعہ فرماتے، اور معمولا راتوں کو دیر تک خطوط ، ٹیلی گرام اور لوگوں کے فقهی سوالات کے جوابات دیتے اور نہیں سوتے تهے، یہ سارے مسائل انسان کے اعصاب کو تهکا دیتی ہیں اور عام آدمی کو بہت جلدی مات دے دیتی ہیں اور خصوصا درس اور لوگوں سے ملنے میں غصہ دلاتی ہیں لیکن استاد (امام خمینی) بہت اطمینان سے اور آرام آرام سے مسائل کو پیش کرتے اور خصوصا درس میں شاگردوں کے اعتراضات کا خوش اسلوبی سے جوابات دیتے، مسائل بیان کرتے وقت کبهی بهی آپ کو غصہ کی حالت میں نہیں دیکها گیا۔
بعض الافاضل فرماتے تهے
تقریبا دس سال تک امام کی درس میں شرکت کرنے کا شرف حاصل ہے، مجهے یاد نہیں کہ کبهی انہوں نے کسی کی شاگردوں کے سامنے بےعزتی اور تذلیل کی ہو دوسرے لفظوں میں کسی کی تحقیر کی ہو، بلکہ ہمیشہ انہوں نے دوسروں کو عزت دی، امام بعض اوقات درس میں اپنے شاگردوں کو بعض الافاضل سے تعبیر کرتے تهے، ایک مرتبہ کسی شاگرد نے امام کے خلاف ایک نئے نظریہ کو بیان کیا جو آپ کو قبول نہیں تها، تو آپ نے فرمایا: بعض الافاضل کل اس طرح فرما رہے تهے، اور پر ان کے نظریہ کو رد کردیا۔
علماء کی عزت اور اتحاد
جب کبهی بهی امام راویوں سے کسی مطلب کو نقل فرماتے تو بعض اوقات ان کی زندگی پر روشنی بهی ڈالتے، اور اس سے نتیجہ لیتے، درس ختم ہونے سے پہلے شاگردوں کو نصیحت فرماتے، جس چیز کے بارے میں اکثر استاد حکم دیتے تهے وہ علماء کی عزت اور اپنے احترام کو برقرار رکهنا اور اتحاد کو قائم رکهنا تها، امام نے فرصت میں یہ قصہ نقل کیا تها کہ: قم میں حوزہ علمیہ کے قیام کے وقت تقریباً صرف ساٹه طالب علم موجود تهے جو رضا خان کے ایجنٹوں کی ڈر سے شہر میں نہیں رہ سکتے تهے ، اور دن کو شہر میں نظر آتے تهے، اسی وجہ سے دنوں کو باغوں میں درس پڑهتے اور راتوں کو شہر میں داخل ہوتے اور سب ہماری عزت کرتے، ہم ساٹه محترم طالب علم تهے۔
دنیاکےمال ودولت کونظراندازکرنے کےلئے طلبا کی حوصلہ افزائی
یہ جانتے ہیں کہ مادی مشکلات مطمئن رہنے اور سوچنے پر بہت اثر انداز ہوتی ہے، لیکن استاد، ان میں سے نہیں تهے جو مشکلوں سے گهبرا جاتے ہیں کبهی بهی درس کے دوران استاد سے مادی مشکلات کے بارے میں کچه نہیں سنا گیا، بلکہ مختلف مواقع میں اس کو نظر انداز کرنے کے بارے میں فرماتے اور شاگردوں کو دنیا کے مال و دولت کو نظر انداز کرنے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی فرماتے۔