امام ؒکے رشتہ داروں میں سے پانچ کا مزار شہر قم میں ہے: ماں، پهوپهی، بہن اور بهائی ان رشتہ داروں میں سے ہر ایک امام کی شخصیت یا سرنوشت میں کسی نہ کسی اعتبار سے موثر رہا ہے ان کی زندگی اور فضیلت کا ایک سرسری جائزہ لطف اور فائدہ سے خالی نہیں ہے۔
ماں، پهوپهی اور بہن ان تینوں خواتین کا مزار خاکفرج روڈ پر امام زادہ احمد ؑکے مزار کے پاس ہے۔ حضرت امام ؒکی والدہ گرامی کا نام ''ہاجر مجتہد زادہ'' تها فرزند حاج میرزا احمد جو حاج آخوند سے مشہور تهے۔ یہ حوزہ علمیہ کے ایک مدرس تهے۔ اس پاک دل اور پاکیزہ خاتون نے اپنے شجاع شوہر سید مصطفی کو ایام جوانی ہی میں کهو دیا تها اس کے باوجود بهی اپنے ٦ فرزندوں کی بڑے ہی اچهے انداز میں تربیت کی۔ بچوں کی تربیت اور حفاظت کے علاوہ اپنے شوہر کے قاتلوں کے بارے میں عدالت سے متعلق اہم کردار ادا کیا۔
روح ﷲ (امام خمینی) ابهی چار ماہ چه دن کے تهے کہ آپ کے والد گرامی کا چراغ ظلم کی تیز وتند آندهیوں سے خاموش ہوگیا اس کے بعد آپ کی ماں اور آپ کی پهوپهی نے آپ کی سرپرستی کو اپنا نصب العین قرار دیا۔ امام خمینی ؒکی پهوپهی ایک شجاع اور پرہیزگار خاتوں تهیں اور آپ کی زبان میں عجیب وغریب اثر تها۔ آپ اپنے بهائی سید مصطفی کی شہادت کے وقت ١٥/ ١٦ سال کی تهیں لیکن آپ کی کم سنی بهائی کے خون کا قصاص لینے سے مانع نہیں ہوئی ان کا اپنے بهائی کے خون کا قصاص لینے پر اصرار اور اس کیلئے عدالتی فیصلہ کی خاطر تہران کا خطرناک سفر کرنا ان کے روحی اقتدا ور بلند ہمتی کا ایک نمونہ ہے۔ پهر ماں اور پهوپهی دونوں کے انتقال کے بعد (کہ دونوں ہی ١٣٣٦هـ ق) امام ؒکی بڑی بہن ''بانو مولود'' اپنے بهائی کی حیات میں ایک اہم اثر رکهتی تهیں۔
وہ خانوادہ کی سب سے بڑی فرد تهیں اور نجف اشرف میں پیدا ہوئی تهیں اور وہیں پر میرزا رضا نجفی سے شادی کرلی تهی۔ ان کے شوہر ایک عالم دین اور خمین واصفہان کے حوزہ میں تدریس کرتے تهے۔ مولود خاتون ١٣٤٣ هـ ق انتقال کر گئیں اور امامزادہ احمد ؑکے جوار میں اپنی ماں اور پهوپهی کے پہلو میں دفن ہوئیں۔
امام ؒکے بڑے بهائی سید نور الدین ہندی ١٣١٥ هـ ق میں خمین میں پیدا ہوئے وہ جوانی میں تہران آگئے اور وہاں وکالت اور دفتر سے متعلق کاموں میں مشغول ہوگئے ان کے ایصال ثواب کی مجالس امام خمینی ؒکی تکریم اور اس زمانہ کے عظیم مرجع کی حیثیت سے ان کا تذکرہ کا مناسب موقع فراہم ہوگیا کہ جو شاہ کے بہت بڑے مخالف تهے۔ یہی وجہ ہے پہلوی حکومت کے حفاظتی دستہ اس امر پر مامور تهے کہ وہ ان کے ایصال ثواب کی مجالس کو کنٹرول کریں لیکن جو مجلس مرحوم آیت ﷲ پسندیدہ ؒ اور مذہبی کمیٹیوں کی طرف سے خمین میں بر پا ہوئیں ذاکرین کو رہبر انقلاب سید نور الدین کے باغ بہشت (گلزار شہدا قم کے آمنے سامنے ہے) میں مزار کا تذکرہ کرنے کا موقع مل گیا۔
آیت ﷲ پسندیدہ ؒ امام خمینی ؒکے دوسرے بهائی ہیں جو ١٣١٣ هـ ق پیدا ہوئے ان کی عمر اپنے والد کے انتقال کے وقت ٨ سال کی تهی اس لیے انہوں نے امام کی حفاظت اور سرپرستی میں خاص کردار ادا کیا۔ امام خمینی ؒنے حوزہ کی بعد مقدماتی کتابیں ان سے پڑهیں۔ وہ ١٣٢٧ هـ ش (١٩٤٨ء) میں مزید تحصیل کیلئے اصفہان گئے اور آقا رحیم ارباب، شیخ علی یزدی، مرحوم تویسرکانی اور آیت ﷲ خاتون آبادی جیسی عظیم شخصیتوں سے درس پڑها۔ پهر دورہ ابتدائی تمام کرنے اور چند سال اصول وفقہ کے خارج میں شرکت کرنے کے بعد خمین واپس آگئے۔
ایران پر متحدہ کمیونسٹوں کے ذریعہ غاصبانہ قبضہ کے دور میں آیت ﷲ پسندیدہ نے تجاوز کرنے والوں کو آذوقہ فراہم کرنے کی مخالفت کرنے کی وجہ سے جلا وطن ہوئے یعنی انہیں سالوں میں جب امام نجف اشرف میں جلا وطن تهے۔ آپ بهی متعدد بار خمین، اراک، داران اور فریدن شہروں میں جلا وطن ہوئے پهر ١٥ خرداد (٥ جون) کے قیام اور امام خمینی ؒکے گرفتار ہونے کے بعد آیت ﷲ پسندیدہ ؒنے ایران کے علماء اور مراجع کے ساته تہران کا سفر کیا اور حکومت کے خلاف علماء کے اعتراضات میں شریک ہوئے۔
١٣٤٢ هـ ش ١٥ خرداد (٥ جون ١٩٦٣ء) کے قیام کے بعد یعنی امام خمینی ؒکے ترکی اور عراق میں قید ہونے یا جلا وطن ہونے کے سالوں میں آیت ﷲ پسندیدہ ؒنے امام ؒکے دفتر شہریہ اور قیدیوں کے خانداں، نیز جلا وطن ہونے والوں کی مالی امداد کے ذمہ دار تهے ساواک کے ریکارڈ میں درج ہے:
مرتضیٰ پسندیدہ اس وقت مخالف علماء اور امام خمینی کے درمیان تهے۔ امام خمینی کے سارے اعلانات اور دستورات پسندیدہ تک پہنچے اور پهر ان کے ذریعہ ملکی پیمانہ پر نشر اور تقسیم ہوتے تهے۔ امام خمینی ہمیشہ اپنے اس عظیم المرتبت بڑے بهائی کو نیکی سے یاد کرتے اور استاد اور باپ کی طرح ان کی تعظیم وتکریم میں کوشاں رہتے تهے۔
حجت الاسلام والمسلمین حاج سید حسن خمینی حضرت امام ؒکے پوتے اپنے والد کے چچا مرحوم آیت ﷲ پسندیدہ ؒکے بارے میں کہتے ہیں: ''آیت ﷲ پسندیدہ ؒامام ؒکے تام الاختیار وکیل اور امام ؒسے مبارزہ کرنے والوں اور مقلدین کے درمیان ایک قابل اطمینان رابطہ تهے''۔
آیت ﷲ پسندیدہ ؒ١٣٧٥ هـ ش (١٩٩٦ء) تہران میں دار فانی سے رحلت کرگئے اور مسجد بالا سر (حضرت معصومہ(ع) کے مزار کے مغرب میں) سپرد لحد کئے گئے۔