ہفتہ میں کچه دن مریم نامی ایک خادمہ گهر کے کام کاج کے لیے ہمارے گهر آیا کرتی تهی۔ یہ خاتون دوسرے گهروں میں بهی کام کے لیے جایا کرتی تهی۔ ایک دن اس نے سید محسن نامی شخص جن کے گهر یہ خاتون کام کرتی تهی کے بارے ذکر کیا۔ میں نے پوچها وہ کون ہیں؟ تو اس نے کہا کہ وہ آیت للہ سید محسن الحکیم کے بارے بات کر رہی ہے۔
ہمارے ہاں بزرگ علما کو اس طرح کے ناموں سے پکارنے کا رواج نہیں تها۔ متجسس ہوئی کہ اس خاتون سے سید محسن حکیم کے بارے کچه زیادہ معلوم کروں۔ اس خاتون نے کہا کہ سید محسن حکیم کو صدام حکومت نے گرفتار کر کے بغداد میں نظر بند کر دیا ہے! میں نے پوچها: آپ کے چاہنے والوں نے کچه نہیں کیا؟ تو اس خاتون نے کہا کچه بهی نہیں! دن کی روشنی میں سب کے سامنے سید محسن حکیم کی توہین کی گئی اور کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ اعتراض کرے!
اس خاتون کی بات سن کر مجهے ایرانیوں کی علما سے اور خاص طور پر آیت اللہ خمینی سے والہانہ محبت اور لگاو یاد آگیا۔ چند بار سن چکی تهی کہ جب رضا شاہ پہلوی قم آیا اور امام خمینی نے علما کا شاہ کے استقبال میں جانے کی مخالفت کی اور اس دن علما کے گهر سے نکلنے کو حرام قرار دیا تو سب لوگوں نے امام کے اس حکم پہ لبیک کہا اور کوئی بهی شخص گهر سے باہر نہ نکلا۔ قم کے بازار بند رہے۔ حتی حرم سیدہ معصومہ کے متولی بهی شاہ کے استقبال کے لیے نہ نکلے! مجبورا شاہ کو اپنے انہیں چند مخصوص لوگوں سے جنہیں وہ تہران سے اپنے ساته لایا تها سے خطاب کر کے واپس جانا پڑا! اس بات نے شاہ کو آگ بگولا کر دیا اور شاہ نے امام خمینی کو قم سے جلا وطن کر دیا۔
اقلیم خاطرات / خانم فاطمہ طباطبائی