زاہد مہدی نے اس گفتگو میں کہا کہ رہبر کبیر نے آج سے چار عشرہ قبل جو فرمایا تها وہ آج بهی ہمارے لیے راہ حل ہے۔ انہوں نے فرمایا تها کہ امریکہ عالم اسلام کی مشکلات کا ذمہ دار ہے اور امریکہ شیطان بزرگ ہے۔ اگر اقوام عالم پر نگاہ دوڑائیں تو وہ تمام ممالک جہاں پر امریکہ کی بالادستی نہیں ہے اور امریکہ کے ساته حالت جنگ میں ہیں وہاں انسانی اقدار بهی محفوظ ہے اور وہ اقوام دنیا میں سرخرو ہیں جبکہ اس کے برعکس جن ممالک نے امریکہ کو اپنا آقا مان لیا ہے وہاں دہشت گردی ہے، بدامنی ہے، فسادات ہے اور تنزلی ہے۔
انهوں نے اسلامی جمہوریہ ایران سے امریکی خصومت اور دشمنی کے بارے میں بهی کہا:
امریکہ روز اول سے انقلاب اسلامی ایران کے پیچهے ہے اور کوئی ایسا موقع ہاته سے جانے نہیں دیا کہ ایران کو زک پہنچائی جائے۔ ایران پر اقتصادی پابندی عائد کر کے انکی معیشت کو برباد کرنے کی کوشش کی تو نتیجے میں ایران خود انحصاری کی طرف چلا گیا۔ امریکہ نے صدام کے ذریعے جنگ مسلط کی تو جذبہ شہادت اور جذبہ ایثار نے ایک طرف قوم کو بیدار اور مضبوط کیا تو دوسری طرف ایران کی دفاعی طاقت سپاہ پاسداران کو ابتداء میں ہی سخت ترین مراحل اور امتحانوں سے گزرنا پڑا جس کے نتیجے میں بنیان مرصوص کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اسی کی طرف رہبر کبیر نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تها کہ یہ پابندیاں ہمارے لیے نعمت ہیں اور یقیناََ نعمت ثابت ہوگئیں۔ تو مختصر یہ کہ اسلامی ممالک اپنے مقدر کے فیصلے واشنگٹن اور وائٹ ہاوس کی بجائے اپنے ہاته میں لے کر قناعت اور توکل کے ساته کام کریں تو دنیا میں اسلام کی بالادستی قائم ہو جائے گی۔ سب سے اہم مسئلہ عالم اسلام کا یہی ہے۔ اس کے بعد دیگر معاملات آتے ہیں جن میں مرکزیت کا نہ ہونا، مختلف مسالک کے درمیان شدید تصادم، مہارت کی کمی، سائنس و ٹیکنالوجی میں پسماندگی اور غربت و جہالت کے علاوہ دہشت گردی وغیرہ شامل ہے۔
غزہ اور فلسطین میں جاری افسوسناک واقعات کے بارے زاہد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:
اس وقت پاکستان کی حکومت مذمت سے کام چلانا چاہ رہی ہے، مذمت اور مطالبہ تو ایسے ممالک میں بهی ہو رہے ہیں جو غیر اسلامی ممالک ہیں.غزہ کے مظلوموں پر ڈهائے جانے والے مظالم خود یہودیوں سے برداشت نہیں ہو رہی ہے ایسے میں حکومت پاکستان کو مذمت سے بڑه کر مسلم ملک ہونے کے ناطے عملی اقدام اٹهانے کی ضرورت ہے۔ جو پاکستانی حکومت کے بس میں ہے، غزہ کے مظلومین کی حمایت میں پاکستان کا پرچم سرنگون کرے، حکومتی سطح پر سوگ منائے، امریکی ایمبیسیز پر دباو بڑهائے، سرکاری سطح پر غزہ کے مظلومین کی بحالی کے لیے فنڈ ریز کرے، حکومت کی جانب سے ان کی بحالی کے لیے رقم مختص کرے اس کے علاوہ غزہ کے زخمیوں کے علاج معالجے کے لیے بهی کام کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو حکومت پاکستان آسانی سے کر سکتی ہے۔