بر صغیر کے شعراء ماہ مبارک میں جماران کے مہمان

بر صغیر کے شعراء ماہ مبارک میں جماران کے مہمان

امام خمینی(رہ) جیسی عظیم شخصیت کی زندگی اس قدر سادہ تهی۔ مجهے معلوم تها کہ امام(رہ) کی جائے سکونت کچه ایسی ہی ہوگی کیونکہ امام(رہ) کوئی مادی پرست انسان نہ تهے بلکہ آپ بطور کامل ایک معنوی اور روحانی فرد تهے۔

حضرت امام خمینی(رہ) ہمیشہ ہی چاہے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل کا دور رہا ہو چاہے انقلاب کی کامیابی کے بعد کا؛ اپنی خداداد ادبی استعداد کو شعر گوئی اور ادبی مضامین کی شکل دی ہے۔امام خمینی(رہ) کے تمام علمی آثار خواہ وہ انقلاب سے قبل آپ کی طالبعلمی کا دور رہا ہو؛ خواہ آپ بحیثیت استاد رہے ہوں یا پهر ایک فقیہ کی حیثیت سے اور یا پهر انقلاب کی کامیابی کے بعد ؛قیمتی سرمایہ کی حیثیت رکهتے ہیں۔

انہیں اسباب کی بنا پر بعض دیگر اسلامی ممالک میں حضرت روح اللہ خمینی(رہ) سے عشق ومحبت کرنے والوں کی تعداد کم نہیں نظر آتی۔البتہ ادب کے حوالہ سے امام بزرگوار کس حد تک دنیا والوں تک اپنی شخصیت کا لوہا منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں یہ خود ایک غور طلب اور دلچسپ موضوع قرار پا سکتا ہے۔

اس سال کی شدید گرمی کے موسم میں پڑنے والے ماہ رمضان جیسے مبارک ومسعود مہینہ کی برکتوں کے سائے تلے ان دنوں جماران میں ہندوستان؛پاکستان اور افغانستان سے کچه شعراء بحیثیت مہمان آئے ہوئے ہیں۔حجۃ الاسلام قبادی کے ہمراہ جناب عبد الجبار کاکایی وغیرہ نے ان شعراء کا استقبال کیا ۔جماران میں واقع امام خمینی(رہ) کے تاریخ ساز گهر میں آنےو الے شعراء میں سفید ریش کے پاکستانی لباس پہنے ہوئے سن رسیدہ شاعر سب سے زیادہ توجہ کا مرکز قرار پاتے ہیں ۔افغانستان کے صوبہ بلخ سے آنے والے ایک مہمان شاعر اپنے جماران کے در ودیوار کو اپنے کیمرے میں قید کر رہے ہوتے ہیں ۔

سرزمین ہندوستان سے تشریف لائے شاعر وہاں موجود رہنما سےاس گهر میں  امام خمینی(رہ) کی سکونت کے سلسلہ میں ضروری معلومات حاصل کرتے ہیں۔ان آنے والوں میں ایک صاحب ماضی کے جهرونکوں سے جهانکتے ہوئے پہلے یہاں آنے کو یاد کرکے جماران میں واقع حسینہ کی جانب آگے بڑه جاتے ہیں ۔سن رسیدہ اور معمر شاعر؛ جماران کے سادہ دروازہ کو دیکه کر حیرت زدہ رہ گئے۔آنے والے تمام شعراء فارسی زبان پر مکمل تسلط رکهتے تهے ۔

ان میں لاہور کی جی سی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی بهی تهے ۔جو مذکورہ یونیورسٹی کے فارسی شعبہ کے مدیر ہیں ۔یہی وہ سن رسیدہ شاعر ہیں جن کا بار بار تذکرہ ہو رہا ہے۔امام راحل(رہ) کے بارے میں موصوف نے خوبصورت اشعار کہے ہیں جو یقیناً ان کے پاس موجود ہوں گے۔

جب ان سے امام خمینی(رہ) کے اس تاریخی گهر کے سلسلہ میں سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کے تصور سے اس گهر کا مشاہدہ کتنا فرق کرتا ہے؟

پروفیسر: نہایت سادہ اور باوقار؛وہی دکها جس کی توقع تهی۔امام خمینی(رہ) کی ذات گرامی خوبیوں کی مظہر تهی۔اسے ایسا ہی ہو نا چاہئے تها۔

جماران: پاکستان میں امام خمینی کی ادبی شخصیت سے کس حد تک لوگ واقف اور آگاہ ہیں؟

پروفیسر: میں امام بزرگوار کے سلسلہ میں ایک کتاب اردو زبان میں لکهی ہے جا کا نام ہے " ایران جان پاکستان "۔

جماران: ایک شاعر کس طرح دنیا سے ظلم و ستم کے خاتمہ میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ؟اور یہی شعراء مسلمانوں میں آپسی محبت و اخوت کس طرح پروان چڑها سکتے ہیں؟

پروفیسر: ہم شاعروں کو دین کے معنوی پیغامات کی ترویج میں بڑه چڑه کر حصہ لینا ہوگا کیونکہ یہی معنویت ہے جس سے یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ہمیں ایک دوسرے کے مذاہب و ادیان کا پاس ولحاظ اور احترام کرنا ہوگا کیونکہ ہم سب کا مقصود خدا ہے۔انسان اگر خدا کے حاضر وناظر ہونے پر یقین کر بیٹهے تو ہرگز قتل وغارتگری جیسے جرائم کا ارتکاب نہیں کرے گا۔

 

ہندوستان سے آنےو الے شاعر کی نگاہ مسلسل امام خمینی(رہ) کی کرسی پر مرکوز تهیں۔ ان کا نام بلرام شُکلا تها ۔ہندو ہونے کے باوجود  انہیں اہلبیت اطہار علیہم السلام سے خاص عشق ولگائو تها ۔ بلرام نے بتایا کہ جب پہلی بار میرا ایران آنا ہوا تب میں انقلاب اسٹریٹ سے امام خمینی(رہ) کا معروف دیوان خریدا تها جب امام(رہ) کے اشعار کا مطالعہ کیا تو تعجب کی کوئی حد نہ رہی مجهے امام خمینی(رہ) کے بعض اشعار یاد بهی ہیں۔

جماران: کس طرح در اہلبیت(ع) سے آشنائی پیدا کی؟

بلرام: اسی دہلی یونیورسٹی میں ۔ساته ہی اضافہ کیا : شاعر کو دین ومذہب کے تعصبات سے ہٹ کر دیکهنا چاہئے ۔شاعرکو ہمیشہ حق و حقیقت اور صداقت و سچائی کی تلاش میں رہنا چاہئے ۔میں اس لئے حضرت علی علیہ السلام سے محبت کرتا ہوں۔

جماران:  ایک شاعر کس طرح دنیا سے ظلم و ستم کے خاتمہ میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ؟اور  شعراء انسانی معاشرے میں آپسی محبت و اخوت کس طرح پروان چڑها سکتے ہیں؟

بلرام: افسوس ہم اس سلسلہ میں صلح لکهنے کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں۔

ہندو مسلک سے تعلق رکهنے والے شکلا کا کہنا تها کہ امام خمینی(رہ) جیسی عظیم شخصیت کی زندگی اس قدر سادہ تهی ۔مجهے معلوم تها کہ امام خمینی(رہ) کی جائے سکونت کچه ایسی ہی ہوگی۔کیونکہ امام خمینی(رہ) کوئی مادی پرست انسان نہ تهے بلکہ آپ بطور کامل ایک معنوی اور روحانی فرد تهے۔

جماران:  ہندو برادران؛ امام خمینی کے بارے کیا  عقیدت رکهتے ہیں؟

بلرام: ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تهی اور امریکہ قدم قدم پہ انگلینڈ کا حامی تها۔امام خمینی نے اس مستکبرین کے سامنے قیام کیا ۔آج خمینی(رہ) ہندوئوں کے درمیان استکباری طاقتوں سے مقابل کرنے والے اور ایک بڑے لیڈر ورہنما کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔

جماران: بلرام بهائی؛ مولا علی(ع) کے بارے اپنا شعر ہمارے مخاطبین کو سنا دیجئے، شکریہ۔

به من رساند نسیم سحر سلام علی 
برهمنم که شدم چون عجم غلام علی
من ضعیف چگونه به شعر پردازم
کنار معجزه کامل کلام علی
چو کودکی که محبت ز مادر آموزد
خوشم که نکته می آموزم از مرام علی
علی،علی و علی عالی و علی اعلا
پر است هفت ممالک ز عطر نام علی
چو نزد حضرت حق سجده کرده است و قیام
بود پیام همه سجده و قیام علی
علی امیر خرابات عشق و توحید است
تمام خلق به مستی کشند جام علی
خوشا که شعر من این بوی بوتراب دهد
صباح و شام معطر شد از مشام علی
خدا کند که بخوانم چو مردم آزاد
علی امام من است و منم غلام علی

 

جب آخر میں افغانستان سے آئے شاعر جناب سید سکندر حسینی سے گفتگو شروع کی تو آج کے  اس دن کو ایک یادگار دن بتاتے ہوئے اضافہ کرتے ہیں:

میں امام خمینی(رہ) کی شاعری کا بچپن سے ہی دلدادہ تها ۔اس وقت سے جبکہ مجهے ابهی باقاعدہ شاعری نہیں آتی تهی۔جب ان سے پشتو زبان اور سنی مذہب سے تعلق رکهنے والے شعراء سے دوستی کے بابت دریافت کیا تو جواب ملا ہماری سب کے ساته دوستی ہے ۔ہمیں آپسی محبت وہمدلی اختیار کرنا چاہئے اور ہر لمحہ آپسی اختلافات ختم کرنے کی فکر ہونی چاہئے۔

۱۷ رمضان المبارک کی شدید گرمی کی یہ دوپہر ختم ہوئی۔یہ مہمان پیر جماران امام خمینی(رہ) کی منزل گاہ سے متعدد یادیں لے کر جاتے ہیں اور اپنے ذہنوں میں ایک رہبر کی پاکیزگی کا اپنے ذہنوں میں خوبصورت نقش ابهارتے ہیں۔

 

منبع:جماران نیوز ایجنسی

ای میل کریں