ماہ مبارک رمضان سن ۳ ہجری کی پندرہویں تاریخ کو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی۔ آپ اپنے والد بزرگوار امیرالمومنین حضرت علیعلیہ السلام کی شہادت کے بعد حکم خدا وندی اور وصیت امام علیعلیہ السلام کے تحت امامت کے درجہ پر فائز ہوئے اور ظاہری خلافت کے حقدار بنے ۔تقریباً ۶ مہینے تک مسلمانوں کے امور کی ذمہ داری آپ کے کاندهوں پر رہی ۔
مندرجہ ذیل سطور میں آپ حضرت امام خمینی رہ کے بیانات کا خلاصہ مطالعہ فرمائیں گے جس میں امام راحل نے ان شرائط کا ذکر فرمایا ہے جن کے سبب امام حسنعلیہ السلام کو معاویہ سے صلح کرنی پڑی:
معاویہ اس دور کا ایک بادشاہ تها؛ حضرت امام حسن مجتبیعلیہ السلام نے اس کے خلاف قیام فرمایا جب کہ اس دور میں ہر کسی نے اس انسان کی بیعت کر رکهی تهی اور ہر کوئی اسے اپنا بادشاہ محسوب کر رہا تها۔ حضرت امام حسنعلیہ السلام نے تا حد امکان اس کے خلاف قیام فرمایا۔ جب کچه نادانوں اور بیہودہ افکار رکهنے والوں نے امامعلیہ السلام کواپنا کام انجام دینے کی اجازت نہ دی اس موقع پر امام عالی مقام نے معاویہ سے صلح کر کے اس کی ظاہری عزت وآبرو بهی ختم کر دی۔امام حسنعلیہ السلام نے معاویہ کا وہی حشر کیا جو سرکار سید الشہداء نے یزید کا کیا تها۔
(صحیفه امام، ج2، ص:371)
امام حسن علیہ السلام کو جتنی اذیت اپنے چاہنے والوں اور اصحاب سے پہنچی، کسی اور سے نہ پہنچی۔ وہ اصحاب جو اس بات سے غافل تهے کہ ان کے وقت کا امام کس منطق کے ساته عمل کر رہا ہے۔ جنہوں نے اپنے بیجا اور بهونڈے خیالات کے ذریعہ امام علیہ السلام سے مقابلہ کرنے کو تیار، امام کو اذیتیں پہنچا کر قتل کی منزلوں تک پہنچایا اور میں تو کہوں گا۔ امام کو شکست دی، امام کے دشمن سے معاہدہ کر بیٹهے اور ہزار قسم کی مشکلات ان کے سبب وجود میں آئیں۔
(صحیفه امام، ج9، ص:30)
... شاید امام حسن علیہ السلام اور اس دور کی مشکلات نیز حادثہ کربلا رونما نہ ہوتے۔ ان تمام گناہوں کے ذمہ دار نہروان کے وہ تقدس مآب ہیں جن پر خدا کی ازلی وابدی لعنت ہے۔ اگر خود پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے دور میں آنحضرت کی دلخواہ حکومت نافذ ہو جاتی ہرگز یہ مسائل پیش نہ آتے،لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ایک گروہ اسلام کے نام پر دشمنی کر بیٹها اور ایک دوسرا گروہ بهی جو کہ آپ کے اطراف میں تها؛ وہ بهی قرآن کریم کے نام پر امیرالمومنین علیہ السلام کے لئے مشکل ایجاد کر بیٹها اور یہ افسوس کا مقام ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کو ستاتا رہے گا۔
(صحیفه امام، ج18، ص:409)
امام حسن علیہ السلام کی تحمىلى صلح کا واقعہ صرف اس لئے تها کہ امام حسن علیہ السلام اپنے اطراف کے خیانت کرنے والے ساتهیوں کے سبب خلافت نہ کر سکیں۔ صلح کے بعد باعتبار روایت، تاریخ کی رو سے معاویہ منبر پہ جا کر کہتا ہے میں نے اپنے کئے وعدوں کو روند ڈالا بالکل اس شخص کی طرح جس نے معاہدہ کی قدر نہ کی۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی یہ صلح اور امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانہ میں ہونے والی حکمیت دونوں تحمیلی تهیں، دونوں کے سرغنہ بعض عیار ومکار اور حیلہ گر افراد تهے۔
(صحیفه امام، ج20، ص:118)