ان دنوں بعض ویب سائٹس پر ڈاکٹر حسن روحانی کے عنوان سے،مصری سیاست داں اور بین الاقوامی ایٹمی توانایی ادارے کے سابق صدر محمد البرادعی کی تحریر نگاہوں کے سامنے آتی ہے۔
محمد البرادعی نے اپنے اس نوٹ میں ڈاکٹر حسن روحانی کو اہم سیاست دانوں کی فہرست میں شمار کرتے ہوئے اضافہ کیا :''میں نے حسن روحانی سے ۲۰۰۳ کے اشتعال انگیز دور میں ملاقات کی ،جناب روحانی اس وقت کے عمل گرا اور روشن فکر صدر مملکت جناب آقای خاتمی کے قومی امنیت سے مربوط امور میں مشاور کی حیثیت رکهتے تهے ۔وہ براہ راست گفتگو کے ذریعہ [پر امن جوہری پروگرام کے بارے میں]کسی سیاسی راہ حل کی تلاش میں تهے ۔نہایت افسوس کے ساته کہنا پڑ رہا ہے کہ موصوف کی معتدل سیاست، امریکہ میں بیٹهے بد گمانی کے مرتکب مفرطین کا شکار ہو گئی''۔
اسی نوٹ کے دوسرے حصہ میں آیا ہے ،ایسا محسوس ہوتا ہے ایک دہائی کے بعد مغربی ممالک سمجه چکے ہیں کہ علاقائی تاثیر گذاری کے لئے یہ کهلم کهلا مقابلہ اورٹکرائواور ایران سے مقابلہ ان کے لئے مطلوبہ اہداف تک رسائی کے لئے قطعاً مناسب روش نہیں ہے۔ماضی قریب میں آقای روحانی کی سیاست کے نتیجہ میں پیش آنے والی بعض موافقتیں دس سال قبل بهی جامہ عملی پہن سکتی تهیں۔
البرداعی اضافہ کرتے ہیں:ایک دوسرے کےاحترام ،آپسی اعتماد اورعفو درگذشت کے ذریعہ ایک امنیتی موافقت اور مدد حاصل کی جا سکتی ہے اور ایک بڑاتحول دنیائے غرب میں لایا جا سکتا ہے اور اسی کے ذریعہ امنیت اور علاقائی ثبات کے حصول کی خاطر کیفیت میں تبدیلی بطور تحفہ قابل درک ہے۔ایران کے صدر جمہوریہ جناب آقای روحانی کی معتدل سیاست ایک بہترین فرصت ہے جسے با آسانی ہاته سے نہیں دینا چاہئے۔
یہ فہرست جو ہر سال ایک بار منزل اشاعت سے گزرتی ہے اس سال کے ان سو افراد کا تعارف پیش کرتی ہے جودنیا میں بہت زیادہ موثر رہے ہوں۔
اس فہرست کی کچه اس طرح تقسیم بندی ہوئی ہے گویا ان افراد کو ان کے شایان شان جگہ پر قرار دیا گیا ہو۔ان گروہوں میں رہبران قوم وملت،انقلابی افراد،فکری اور عملی میدان میں بڑه چڑه کر حصہ لینے والے ،قدرتمند،ہنرمند،دانشوران،مفکرین،مشاہیر زمان اور ورزش کاروں کے نام خصوصیت کے ساته قابل ذکر ہیں۔
منبع:جماران نیوز ایجنسی