امام خمینی اور بہشتی عوام کو ملک کا حقیقی مالک سمجھتے تھے:فرشاد مومنی

امام خمینی اور بہشتی عوام کو ملک کا حقیقی مالک سمجھتے تھے:فرشاد مومنی

معروف ایرانی ماہرِ معیشت دکتر فرشاد مؤمنی نے موجودہ سیاسی و اقتصادی صورتحال پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران ایک تشویش کن کا شکار ہو چکا ہے، جس میں عوام کو ملکی فیصلوں سے عملاً کنار گذا دیا گیا ہے۔

امام خمینی اور بہشتی عوام کو ملک کا حقیقی مالک سمجھتے تھے:فرشاد مومنی

جماران خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق معروف ایرانی ماہرِ معیشت دکتر فرشاد مؤمنی نے موجودہ سیاسی و اقتصادی صورتحال پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران ایک تشویش کن کا شکار ہو چکا ہے، جس میں عوام کو ملکی فیصلوں سے عملاً کنار گذا دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہید دکتر بہشتی اور امام خمینی کے نظریات کے مطابق، عوام اس ملک کے اصل وارث اور بااختیار ہیں، مگر آج کے ایران میں ان کی جگہ محدود کر دی گئی ہے۔ مؤمنی کے مطابق، اس فکری زوال کی جڑیں اُس دوگانگی میں ہیں جو دین و اقتصاد کے سخت گیر اور غیرمنعطف تفاسیر سے جنم لیتی ہے۔

انہوں نے شہید بہشتی کی کتاب "دکتر شریعتی، جستجوگری در مسیر شدن" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں بہشتی نے جدید اسلامی تفکر کو روایت پسند حوزوی نظریات کے مقابل واضح انداز میں پیش کیا ہے، جو آج کے حالات کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔

مؤمنی نے اس صورتحال کو ’’مشارکت‌ زدایی‘‘ یعنی عوام کو سماجی، اقتصادی اور سیاسی امور سے ساختی طور پر بےدخل کرنے کا عمل قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے چالیس برسوں کی مردم شماری سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کی تقریباً دو تہائی فعال عمر کی آبادی ملکی پیداوار میں کوئی حصہ نہیں لیتی، جو ایک واضح سرکاری حقیقت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ سیاسی اور سماجی میدانوں میں عوام کی عدم شمولیت زیادہ حساس اور متنازعہ مسئلہ ہے، مگر صورتِ حال اتنی خراب ہے کہ اقتصادی شعبے کی کمزور شمولیت بھی نسبتاً بہتر محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے وزارتِ کشور کی تین جلدوں پر مشتمل رپورٹ "بررسی وضعیت اجتماعی کشور" کو اس حوالے سے قابل اعتماد ماخذ قرار دیا۔

فرشاد مؤمنی نے نشاندہی کی کہ ایران میں ۱۳۸۴ (2005) سے لے کر آج تک معاشی زوال کی غیر معمولی لہر دیکھنے کو ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض برسوں میں اگرچہ بظاہر ایران کو پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں اول قرار دیا گیا، لیکن یہ محض اعداد و شمار کا دھوکہ تھا اور عملی طور پر یہ ادوار ترقی کی بجائے تنزلی کے تھے۔

انہوں نے نظامِ فیصلہ سازی اور مالیاتی پالیسیوں میں موجود سنگین تضادات کی بھی نشان دہی کی۔ مؤمنی نے کہا کہ موجودہ مالیاتی نظام کا بوجھ سب سے زیادہ کم آمدنی والے تنخواہ دار طبقے پر ہے، جب کہ سب سے کم ٹیکس اُن افراد سے وصول کیا جاتا ہے جو غیر پیداواری، غیر شفاف اور بدعنوان دولت کے مالک ہیں۔

ای میل کریں