رہبر انقلاب اسلامی اور مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر نے 8 فروری سنہ 1979 کو فضائيہ کے ایک خصوصی دستے 'ہمافران' کی جانب سے امام خمینی کی تاریخی بیعت کی سالگرہ کے موقع پر فضائيہ اور فوج کے ائير ڈیفنس شعبے کے بعض کمانڈروں سے ملاقات میں اس تاریخی دن کو ایک سرفراز، خود مختار اور تشخص والی فوج کی پیدائش کا دن قرار دیا۔
انھوں نے مذاکرات کے بارے میں اخبارات اور سوشل میڈیا پر چل رہی بحثوں اور بعض لوگوں کے بیانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان باتوں کا اصل محور، امریکا سے گفتگو ہے اور مذاکرات کو ایک اچھا کام بتایا جا رہا ہے گویا کوئي مذاکرات کے اچھے ہونے کا مخالف ہے!
آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے دنیا کے تمام ممالک سے مذاکرات، آمد و رفت اور معاہدوں کے انعقاد کے سلسلے میں وزارت خارجہ کی بھرپور سرگرمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں جو واحد استثناء ہے، وہ امریکا ہے۔ البتہ ہم استثناء کے طور پر صیہونی حکومت کا نام نہیں لیتے کیونکہ یہ حکومت بنیادی طور پر حکومت نہیں ہے بلکہ ایک مجرم اور زمین غصب کرنے والا گینگ ہے۔
انھوں نے مذاکرات سے امریکا کے مستثنیٰ ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ اگر ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائيں تو فلاں مشکل حل ہو جائے گي لیکن حقیقت، جسے ہمیں صحیح طریقے سے سمجھنا چاہیے، یہ ہے کہ امریکا سے مذاکرات کا ملک کے مسائل دور کرنے میں کوئي اثر نہیں ہے۔
سپریم لیڈر نے سنہ 2010 کے عشرے میں امریکا اور بعض دیگر ممالک کے ساتھ مذاکرات کے منفی تجربے کو، جو ایٹمی معاہدے پر منتج ہوئے تھے، امریکا کے ساتھ مذاکرات کے بے فائدہ ہونے کی دلیل بتایا اور کہا کہ اس وقت کی ہماری حکومت ان کے ساتھ بیٹھی، رفت و آمد کی، مذاکرات کیے، آپس میں ہنسے، ہاتھ ملایا، دوستی کی اور سب کچھ کیا اور معاہدہ ہو گيا جس میں ایرانی فریق نے بہت زیادہ سخاوت دکھاتے ہوئے فریق مقابل کو کافی زیادہ پوائنٹس دیے لیکن امریکیوں نے اس معاہدے پر عمل نہیں کیا۔
انھوں نے امریکا کے موجودہ صدر کے اپنے پچھلے دور صدارت میں ایٹمی معاہدے کو پھاڑنے کے بیان اور اس پر عمل کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس صدر سے پہلے بھی، اس امریکی حکومت نے، جس نے معاہدے کو تسلیم کیا تھا، اس پر عمل نہیں کیا اور ایران پر عائد امریکی پابندیاں، جنھیں ہٹایا جانا تھا، نہیں ہٹیں اور اقوام متحدہ کا مسئلہ بھی ملک کی پیشرفت کو روکنے والے عنصر کی طرح ایران کے سر پر باقی رہا۔
رہبر انقلاب نے "دو سال تک مذاکرات کرنے، پوائنٹس دینے، باتیں ماننے لیکن نتیجے تک نہ پہنچنے" کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کو ضروری بتایا اور کہا کہ امریکا نے نقائص سے بھرے ہوئے اس معاہدے کی بھی خلاف ورزی کی اور اس سے نکل گيا۔ بنابریں اس طرح کی حکومت کے ساتھ مذاکرات غیر عاقلانہ، غیر دانشمندانہ اور غیر شرافتمندانہ ہے اور اس سے مذاکرات نہیں کرنے چاہیے۔
انھوں نے ملکی مسائل اور ان معاشی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن سے زیادہ تر لوگ دوچار ہیں، کہا کہ جو چیز مشکلات کو دور کرتی ہے وہ داخلی عنصر یعنی "ذمہ دار عہدیداروں کا عزم اور متحد قوم کا تعاون" ہے اور اس قومی اتحاد کا مظہر، گيارہ فروری کی ریلی ہے جس میں ان شاء اللہ اس سال بھی ہم اس اتحاد کا مشاہدہ کریں گے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے دنیا کا نقشہ بدلنے کے لیے امریکا کی تگ و دو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اس کام کی کوئي زمینی حقیقت نہیں ہے اور یہ صرف کاغذ پر ہے، البتہ وہ ہمارے بارے میں بھی اظہار خیال کرتے ہیں، بات کرتے ہیں اور دھمکی دیتے ہیں۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ اگر وہ ہمیں دھمکی دیں گے تو ہم بھی انھیں دھمکی دیں گے، اگر وہ اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنائيں گے تو ہم بھی اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنائيں گے اور اگر انھوں نے ہماری قوم کی سلامتی پر حملہ کیا تو بلاشبہ ہم بھی ان کی سلامتی پر حملہ کریں گے۔
سپریم لیڈر نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں 8 فروری سنہ 1979 کو ایک مبارک، پرشکوہ اور یادگار دن قرار دیا اور کہا کہ ان جوانوں کے شجاعانہ قدم نے نئي فوج کی سمت کا تعین کر دیا اور اس بات کا سبب بنا کہ فوج کے مختلف شعبے اور اسٹاف، اس بیعت سے الہام حاصل کر کے قوم کی صفوں میں شامل ہو جائيں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی فوج کو امریکی فوجی مشنری کے ماتحت قرار دینے کے پہلوی حکومت کے اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فوج کا ڈھانچہ، ہتھیار اور ٹریننگ امریکی تھی اور اہم عہدوں پر تعیناتی یہاں تک کہ ہتھیاروں کا استعمال بھی امریکیوں کی اجازت سے ہی ہوتا تھا اور انحصار کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ایرانیوں کو کل پرزے کھولنے اور ان کی مرمت کرنے تک کی اجازت نہیں تھی۔
انھوں نے کیپیچولیشن کے خلاف امام خمینی کی نومبر 1964 کی تقریر کو ملک اور اس کی فوج پر امریکا کے ذلت آمیز تسلط پر اعتراض بتایا اور کہا کہ کیپیچولیشن کی بنیاد پر، جسے پہلوی حکومت کے اوپر سے لے کر نیچے تک کے سبھی عہدیداروں نے تسلیم کر لیا تھا، کسی بھی امریکی پر ایران میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا، چاہے اس نے جو بھی جرم کیا ہو۔