حضرت فاطمہ زہراء (س) کے کلام میں نماز کو سبک اور خفیف شمار کرنے کے نتائج

حضرت فاطمہ زہراء (س) کے کلام میں نماز کو سبک اور خفیف شمار کرنے کے نتائج

زمانہ غیبت میں حضرت ولی عصر (عج) کی معرفت حاصل کرنا عوام کا فریضہ ہے

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام سید جعفر علوی، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی کے فیکلٹی ممبر نے مشہد مقدس میں اسٹوڈنٹس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے نزدیک سے نماز کی اہمیت اور اسے سبک اور خفیف سمجھنے والوں کی عاقبت پر بات کی، یہ اجتماع حضرت فاطمہ زہراء (س) کی شہادت کی مناسبت سے منعقد کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ نماز اولیاء دین اور اہل بیت علیہم السلام کی زندگی میں ایک بہت اہم مقام رکھتی ہے اور حضرت فاطمہ زہراء (س) کے کلام اور سیرت میں اس کا بہت زیادہ عکس ملتا ہے۔

حجت الاسلام علوی نے کہا کہ حضرت فاطمہ زہراء (س) نے وجوب نماز کے فلسفے کو یوں بیان کیا کہ اللہ تعالی نے نماز کو تکبر اور غرور سے پاک کرنے کے لیے فرض کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حضرت فاطمہ زہراء (س) کی زندگی میں نماز کا اتنا اہم مقام تھا کہ ان کی زیادہ تر عمر اسی عبادت میں گزر گئی۔ اس قدر کہ حضرت فاطمہ زہراء (س) کی نماز کی وجہ سے ان کے پائے مبارک میں ورم آگئے تھے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نماز کو ایک اہم عبادت اور آداب بندگی کے طور پر آپ نے اپنی زندگی کا حصہ بنایا تھا۔

حجت الاسلام علوی نے کہا کہ جو لوگ نماز کو سبک سمجھتے ہیں اور اس کی طرف توجہ نہیں دیتے، انہیں اس کے نقصانات اور آفات سے آگاہ ہونا چاہیے۔ حضرت فاطمہ زہراء (س) نے اپنے والد، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تھا کہ جو شخص نماز کو سبک سمجھے، اس کے لیے کیا عذاب ہے؟ تو حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے شخص کے لیے ۱۵ آفات ہیں، جن میں سے ۶ آفتیں دنیا میں اور باقی قیامت کے دن ہوں گی، جیسے موت کے وقت، قبر میں، اور قیامت کے دن۔

انہوں نے دنیا میں نماز کو سبک سمجھنے کے نقصانات پر بات کی کہ اس سے انسان کے عمر اور مال میں برکت ختم ہو جاتی ہے، یعنی اس کا مال اور عمر بغیر کسی فائدے کے ضائع ہو جاتے ہیں۔ ایک اور نقصان یہ ہے کہ نماز کو سبک سمجھنے سے انسان کا چہرہ صالحین سے جدا ہو جاتا ہے اور اس کی دعائیں آسمان تک نہیں پہنچتیں۔

 

زمانہ غیبت میں حضرت ولی عصر (عج) کی معرفت حاصل کرنا عوام کا فریضہ ہے

 حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت‌الاسلام والمسلمین محمد رضائی نے حوزہ نیوز کے رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: رسول اللہ (ص) نے فرمایا: "جس شخص کا انتقال اس حال میں ہو کہ اس کی گردن پر امام کی بیعت نہ ہو، اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔" انہوں نے وضاحت کی کہ جو لوگ اپنے امام کی معرفت حاصل نہیں کرتے، ان کی موت منافقانہ اور کافرانہ شمار ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ حدیث شیعہ اور سنی دونوں مکاتب میں معتبر سمجھی جاتی ہے اور حتیٰ کہ وہابی مسلک کے ابن تیمیہ نے بھی اسے صحیح حدیث کے طور پر نقل کیا ہے۔

کاشان یونیورسٹی کے استاد نے سوال اٹھایا کہ معرفت امام حاصل کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ مرحوم آیت‌اللہ سید علی قاضی نے معرفت امام کے حصول کی پہلی شرط "امام کی طرف توجہ اور ان کی موجودگی کا احساس" قرار دی ہے۔

انہوں نے تاکید کی کہ حضرت امام مہدی (عج) کے ظہور میں تعجیل کے لیے ہمیں ہمیشہ ان کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور اپنے کاموں میں ان کی یاد کو اولیت دینی چاہیے۔ استاد نے کہا کہ معرفت امام اور حضرت حجت (عج) کی طرف توجہ عوام کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

انہوں نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے ہر مشکل، دکھ اور اذیت کے دوران مولائے کائنات حضرت علی (ع) کی مدد کی اور یہ نصرت امام کی بہترین مثال ہے۔

حجۃالاسلام رضائی نے کہا کہ حضرت امام مہدی (عج) کے ظہور کی تاخیر کی وجہ ظہور کےحقیقی طلبگاروں کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ بخیل نہیں، لیکن امام زمانہ (عج) کے ظہور کے لیے معاشرے کی جانب سے حقیقی طلب اور احساس ذمہ داری کی ضرورت ہے۔

 

ای میل کریں