اسلامی جمہوریہ ایران کے چودہویں صدر کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کی تقریب میں خطاب

اسلامی جمہوریہ ایران کے چودہویں صدر کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کی تقریب میں خطاب

مینڈیٹ کی توثیق کا دن اور توثیق کی تقریر، اس ضخیم اور پرمعنیٰ کتاب کا آخری ورق ہے جو ایران کی عظیم قوم اور متعلقہ افراد نے اس پرجوش الیکشن کے ذریعے مدوّن کی ہے

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 28 جولائی 2024 کو چودہویں صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کی تقریب سے خطاب کیا۔ (1) خطاب حسب ذیل ہے:

 

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

 

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

 

مینڈیٹ کی توثیق کا دن اور توثیق کی تقریر، اس ضخیم اور پرمعنیٰ کتاب کا آخری ورق ہے جو ایران کی عظیم قوم اور متعلقہ افراد نے اس پرجوش الیکشن کے ذریعے مدوّن کی ہے اور اسے ملک ایران کے پرافتخار کارناموں کی الماری میں محفوظ کر لیا ہے۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ چودھویں صدارتی انتخابات، ہمارے شہید صدر، مرحوم جناب رئیسی رضوان اللہ علیہ کو کھو دینے کی وجہ سے ملک کے عمومی غم و اندوہ کے ماحول کے باوجود بحمد اللہ بہترین طریقے سے منعقد ہوئے؛ پرامن طریقے سے، شفافیت کے ساتھ، رقابت کی فضا میں، انتخابات کے بعد منتخب اور محترم صدر کے ساتھ حریفوں کے بااخلاق رویے کے ساتھ کہ یہ رویہ واقعی قابل تعریف تھا۔ یہ ملک کے لیے ایک بڑا اہم امتحان تھا اور بحمد اللہ کامیابی سے انجام پایا۔ اس کے شیریں نتائج ان شاء اللہ ہماری عزیز قوم کو حاصل ہوں گے۔

 

میں ضروری سمجھتا ہوں کہ تقریباً دو مہینے کے اس عرصے میں ملک کے امور چلانے میں قائم مقام صدر جناب مخبر صاحب اور کابینہ کے کردار کی یاد دہانی کراؤں اور ان حضرات کا شکریہ ادا کروں۔ ان لوگوں نے اہم کردار ادا کیا اور اللہ کے فضل سے ملک کو پرامن ماحول میں اور عوام کے اچھے عمومی جوش و جذبے کے ساتھ الیکشن تک پہنچایا اور انتخابات کو بہترین طریقے سے منزل مقصود تک پہنچایا۔

 

بحمد اللہ ہمارے ملک میں رقابت اور شفافیت سے لبریز ایک جمہوریت ہے۔ میرے عزیزو! یہ جمہوریت جو آج ہمارے ملک میں ہے، یہ آسانی سے ہمارے ہاتھ نہیں آئي ہے، یہ اس ملک میں ماضی میں پائي جانے والی ایک رقت بار اور آشفتہ صورتحال کے خلاف عوام کے قیام کا نتیجہ ہے۔ ہمارے امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے انقلاب کی کامیابی کے پہلے دن سے بڑے ٹھوس طریقے سے ملک میں ایک ایسی چیز مضبوطی سے قائم کر دی جس کی کوئي مثال ہی نہیں تھی اور وہ ملک چلانے میں عوام کی شمولیت، ان کی موجودگي اور ان کی اثر انگيز شرکت ہے، یہ امام خمینی کا عظیم کام تھا جو ہمارے ملک کی زندگي کی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔

 

اس سے پہلے کہ ایرانی قوم امام خمینی کی قیادت میں جمہوریت حاصل کرے، ہمارے پاس مشروطیت (آئینی تحریک) کا تجربہ تھا اور وہ ایک ناکام تجربہ تھا۔ مشروطیت میں عوام نے جدوجہد کی، کوشش کی، شہیدوں کا نذرانہ دیا، بہت زیادہ مجاہدت ہوئي لیکن چونکہ ایک طاقتور، عوام پسند اور ٹھوس قیادت نہیں تھی اس لیے یہ تحریک شروع سے ہی آشفتگی کا شکار رہی، اغیار نے اس میں مداخلت کی، منمانی کام کرنے والے لوگ میدان میں آ گئے، تقریباً پندرہ سال تک ملک آشفتگي کی حالت میں رہا پھر اس کے بعد پرتشدد رضا شاہی آمریت اقتدار میں آ گئي، یعنی مشروطیت کے حکمنامے پر دستخط اور رضا خان جیسے پرتشدد، بے رحم اور پٹھو ڈکٹیٹر کے بر سر اقتدار آنے کے درمیان پندرہ سال سے زیادہ کا فاصلہ نہیں رہا اور رضا پہلوی کے بر سر اقتدار آتے ہی قوم کی ساری محنت رائیگاں چلی گئي۔

 

پہلے پہلوی کی حکومت کی سب سے اہم خصوصیت، جو تقریبا چار سال تک وزیر اعظم اور مسلح فورسز کے کمانڈر وغیرہ کی شکل میں تھی اور اس کے بعد سلطنت اور بادشاہت کی حیثیت سے تھی، ایک طرف پرتشدد آمریت، مظلوم کشی اور قوم پر دباؤ اور دوسری طرف غیر ملکی عناصر کے مقابلے میں ذلت، جی حضوری اور خاموش تماشائي بنے رہنے سے عبارت تھی۔ رضا شاہ کو انگریزوں نے اقتدار میں پہنچایا تھا اور جو کچھ انھوں نے چاہا وہ انجام پایا؛ سیاست کے میدان میں، ثقافت کے میدان میں، ملک چلانے کے طریقے کے سلسلے میں جو کچھ وہ چاہتے تھے، ملک میں وہی ہوا: قومی ذخائر کو لوٹا گیا، تیل کی ظالمانہ قرارداد جو ختم ہونے والی تھی، تیس سال اور بڑھا دی گئي، لوگوں کے ساتھ سختی کی گئي اور ان کی سرکوبی ہوئي، دین، دینداری اور علمائے دین کے ساتھ، جو عوام کی تحریک کے اہم عنصر تھے، کھل کر محاذ آرائي کی گئي، پھر اس کے دور حکومت کے اواخر میں، جب انگریزوں کو یہ محسوس ہوا کہ رضا شاہ میں نازی جرمنی کی طرف جھکاؤ پیدا ہو رہا ہے، دوسری جنگ عظیم کے آغاز اور جرمنی کے معرکوں سے، جن سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ پیشقدمی کر رہا ہے، رضا شاہ میں اس کی طرف جھکاؤ پیدا ہو گيا تھا، تو انھی انگریزوں نے، جو اسے بر سر اقتدار لائے تھے، آ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ باہر! اسے ملک بدر کر دیا اور اس کے نااہل بیٹے کو اس کی جگہ بٹھا دیا اور پھر وہی سب کچھ جاری رہا۔ محمد رضا بھی اپنے باپ کی راہ پر ہی چلا یعنی لوگوں پر سختی، شدید داخلی گھٹن، ایران کے قومی ذخائر، خاص طور پر تیل پر تسلط میں اغیار کی مدد اور اغیار کی پالیسیوں کے مقابلے میں جی حضوری اور ذلت - یہ باتیں کبھی ہم لوگ کہا کرتے تھے، بعد میں جب خود پہلوی خاندان، اس کے رشتہ داروں اور قریبی افراد کی آپ بیتی کی کتابیں شائع ہوئيں تو ہم نے دیکھا کہ یہی باتیں جو ہم جانتے تھے اور کہتے تھے، ان باتوں کا اقرار وہ لوگ خود بھی کر رہے ہیں - اغیار کے حکم پر، ان کے چشم و ابرو کے اشارے پر وزیر اعظم کا تعین، ہتھیاروں کی خریداری کی نوعیت کا تعین، تیل کی فروخت کی نوعیت، ان میں سے ہر ایک کی قیمت اور ملک چلانے کے باقی دوسرے مسائل اغیار کے ذمے اور ان کے ارادے کے تابع، عوام پر بے تحاشا دباؤ، یہ ان کی سیاست کی صورتحال تھی۔ یہ باتیں اہم ہیں، ان نکات کی طرف توجہ اہم ہے۔ بات یہاں تک پہنچ گئي کہ محمد رضا پہلوی نے، ایک قومی حکومت کو سرنگوں کرنے کے لیے کہ جو استثنائي طور پر عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آئي تھی، امریکیوں اور انگریزوں سے مدد مانگي کہ وہ ایران میں بغاوت کرائيں اور انھوں نے بغاوت کرائي اور حکومت کو گرا دیا۔ کیا اس سے بڑی اور اس سے زیادہ کھلی ہوئي کسی خیانت کا تصور کیا جا سکتا ہے؟ یہ جمہوریت جو آج آپ ایران میں دیکھ رہے ہیں، اس طرح کی صورتحال کے مقابلے میں ایرانی قوم کے قیام کا نتیجہ ہے۔ ایرانی قوم کو کبھی بھی ملک چلانے کے امور میں مداخلت کا تجربہ نہیں تھا، اس نے کبھی اس کی آزمائش نہیں کی تھی، اسلامی انقلاب نے یہ چیز ہمارے عظیم اور بے مثال امام خمینی کے ہاتھوں ایرانی قوم کو تحفے میں دی۔ اس کی قدر کرنی چاہیے: یہ جمہوریت، یہ عوامی شراکت۔

 

ان چالیس سے زیادہ برسوں میں ہمارے ملک میں دسیوں الیکشن ہوئے ہیں، پارلیمانی انتخابات، صدارتی انتخابات، کونسلوں کے انتخابات، آئين کے ماہرین کی کونسل کے انتخابات، رہبر کا انتخاب کرنے والے ماہرین کے انتخابات، اور سارے انتخابات رقابت، شفافیت اور عوام کی پرجوش شرکت کے ساتھ، کبھی کم اور کبھی زیادہ، یہ اہمیت کے پہلے درجے میں نہیں ہے، جو چیز اہمیت کے پہلے درجے میں ہے وہ عوام کا پرجوش ہونا ہے۔ لوگ جوش و جذبے کے ساتھ ووٹ ڈالنے آتے ہیں اور ووٹ ڈالتے ہیں، یہ کام ہمیشہ ہوا ہے اور ہوتا رہا ہے۔

 

بحمد اللہ حالیہ انتخابات بھی اچھی طرح منعقد ہوئے اور لوگوں نے بحمد اللہ ایک اچھے صدر کا انتخاب کیا ہے۔ انھوں نے آج یہاں جو باتیں کہیں وہ بہت ٹھوس، گہری اور حقیقی اسلامی جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی پابندی کی غماز ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ان کی مدد کرے گا۔ ہم سب کو اپنی توانائي کے مطابق ان کی اور ان کی حکومت کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ یہ بڑے کام انجام دے سکیں۔ تو یہ اصل بات کے سلسلے میں ہمارے کچھ معروضات تھے۔

 

میں کچھ سفارشات بھی کرنا چاہتا ہوں اور یہ سفارشات حکومت اور ان عہدیداروں سے بھی ہیں جو ان شاء اللہ اہم عہدے سنبھالیں گے اور قوم سے بھی ہیں اور ہم سب کے لیے اور ہمارے لیے بھی ہیں۔

 

پہلی سفارش۔ ہمارا ملک ایک بڑا ملک ہے، ہماری قوم ایک بڑی قوم ہے۔ ہماری قوم میں صاحبان فکر، جدت طرازی کرنے والے، تجربہ رکھنے والے، صاحب رائے افراد بے شمار ہیں۔ جب انسان، ان کی اور ان کی باتیں سنتا ہے تو مختلف طبقوں کے مختلف افراد کی زبان سے اتنی زیادہ نئي باتیں، نئي سوچ اور نئے افکار اس کے سامنے آتے ہیں کہ وہ حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ تحریری طور پر جو تجاویز پیش کرتے ہیں، بالمشافہ ملاقات میں جو باتیں کرتے ہیں، اعتراض کی شکل میں جو چیز بیان کرتے ہیں، تجویز کی صورت میں جو بات پیش کرتے ہیں وہ سب اس لحاظ سے خوش خبری ہیں کہ ان سے مستقبل کے لیے نئي سوچ، نئے افکار اور اچھے اور راستے کھولنے والے تجربے کا پتہ چلتا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی صلاحیت ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ ایک عظیم قومی ثروت ہے اور اس سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ محترم صدر اور حکومت ان شاء اللہ عوام کے لیے، عوام کے ساتھ اور عوام کے درمیان اس عظیم عوامی صلاحیت سے استفادہ کریں گے اور اس سے ان اہداف کے حصول کے لیے فائدہ اٹھائيں گے جن کا انھوں نے ذکر کیا اور اس سے اس راستے کو طے کرنے کے لیے فائدہ اٹھائيں گے جس پر وہ چلنا چاہتے ہیں۔

 

البتہ ان انسانی مواقع کے ساتھ ہی ہماری کچھ قدرتی اور مادی ثروتیں بھی موجود ہیں اور وہ بھی فراواں ہیں۔ ہمارے ملک کی قدرتی ثروت، اس چیز اور اس مقدار سے کہیں زیادہ ہے جتنا آج تک ہم نے فائدہ اٹھایا ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ہم ان انسانی ذخائر اور انسانی و قدرتی ثروت پر بھروسہ کر کے بڑے بڑے کام کر سکتے ہیں، البتہ اس کی شرط یہ ہے کہ ہمارا عزم محکم اور حوصلے بلند ہونے چاہیے، سنجیدگي سے کاموں پر توجہ دیں اور ان شاء اللہ اچھے معاونین کا انتخاب کریں۔ یہ ہماری پہلی سفارش ہے۔

 

دوسری سفارش جہادی کام سے متعلق ہے۔ میری عرض یہ ہے کہ جہادی جذبے کے ساتھ مشکلات کے پہاڑوں کو بھی ان کی جگہ سے اکھاڑا جا سکتا ہے۔ جہادی کام کا کیا مطلب ہے؟ یعنی نہ تھکنا، بغیر احسان جتائے کام کرنا، انسانی اور خدائی فریضے کی انجام دہی کو ہدف قرار دینا اور آگے بڑھنا، یہ جہادی کام ہے۔ البتہ قانونی اور ادارہ جاتی ضوابط پائے جاتے ہیں، ان کی پابندی ہونی چاہیے لیکن جہادی کام، کوالٹی ہے، کام کی نوعیت ہے۔ سو فیصد قانونی طریقے سے کام کیا جا سکتا ہے، جہادی طریقے سے بھی اور غیر جہادی طریقے سے بھی۔ بہت سے لوگ ہیں جو ظاہری طور پر قانون کی پابندی کرتے ہیں لیکن کام آگے نہیں بڑھتا، کام انجام نہیں پاتا۔ محترم صدر کچھ دن پہلے مجھ سے اسی سلسلے میں بات  کر رہے تھے کہ ہمارے بعض اداروں میں انسان بیٹھا ہوا ہے، وہ ذمہ دار ہے، اس کی ذمہ داری ہے لیکن اس کے کام کا نتیجہ صبح سے لے کر رات تک کوئي خاص نہیں ہے، کوئي فائدہ مند نتیجہ نہیں ہے، صدر محترم کی یہ بات صحیح ہے۔ جہادی کام، اس کے بالکل خلاف ہے۔ ہم نے جہادی کام سے ملک میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں: ہمارا آٹھ سالہ مقدس دفاع، جہادی کام سے ہی آگے بڑھا۔ دشمن کی مختلف پیچیدہ سازشوں کو ان تیس چالیس برسوں میں جہادی کام سے ناکام بنایا گيا۔ شہید رئيسی رحمت اللہ علیہ جہادی کام کرنے والے انسان تھے، واقعی وہ دن رات کام کرتے تھے، واقعی وہ اپنے اتنے زیادہ کاموں پر شاباشی اور آفرین لینے کی کوشش میں نہیں رہتے تھے، یہ چیز ہم نے قریب سے دیکھی ہے، محسوس کیا ہے۔ وہ حقیقی معنی میں کوشش کرتے تھے، کام کرتے تھے، ان سے جو بھی بن پڑتا تھا، کرتے تھے، بہت سے لوگ سمجھ نہیں پاتے تھے، یعنی ایسے کام نہیں تھے جو لوگوں کی نظروں کے سامنے ہوں لیکن وہ کام کرتے تھے۔ تو یہ ہماری اگلی سفارش تھی جو جہادی کام سے عبارت ہے۔ میدان میں مجاہدانہ طریقے سے اترنا اور دور سے کنٹرول کرنے کی روش سے پرہیز کرنا، اگر کوئي منتظم دور سے کاموں کو کنٹرول کرنا چاہے تو یہ نہیں ہو پائے گا۔ اسے کام کے اندر جانا پڑے گا۔

 

اگلی سفارش: ملک کے اداروں کے درمیان تعاون؛ اس کے بغیر کام نہیں کیا جا سکتا۔ پارلیمنٹ کو مدد کرنی چاہیے، حکومت کو پارلیمنٹ کی حساسیتوں کا خیال رکھنا چاہیے، جہاں پر بھی ضرورت ہو عدلیہ کو وہاں بھرپور طریقے سے موجود رہنا چاہیے، مسلح فورسز کو بھی ہر ضرورت کی جگہ پر اور جہاں لوگوں کو ضرورت ہو، اپنے فرائض کے مطابق موجود رہنا چاہیے۔ سبھی کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ ملک کے تینوں اداروں کے سربراہوں کی جو نشست ہوتی ہے وہ بہت اچھا پلیٹ فارم ہے۔ میں نے پہلے بھی انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں کو سفارش کی تھی، اس وقت بھی جو لوگ یہاں تشریف رکھتے ہیں، ان کو سفارش کر رہا ہوں کہ تینوں اداروں کے سربراہوں کی ان نشستوں اور تبادلۂ خیال کو سنجیدگي سے لیں، یہ بہت اچھا کام ہے، ہمارا تجربہ ہے کہ ہم نے برسوں اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔

 

اگلی سفارش، ترجیحات کے حساب سے کام کرنا ہے۔ البتہ سبھی جانتے ہیں کہ میں ثقافتی مسائل کے سلسلے میں بہت حساس ہوں، ثقافتی مسائل اور سماجی مسائل، بہت اہم ہیں، شاید ان کی اہمیت سب سے زیادہ ہو لیکن آج وقت کے لحاظ سے ترجیح، معاشی مسائل کو حاصل ہے۔ منصوبہ بند، ٹھوس اور لگاتار کام کیے جانے کے لائق ایک معاشی تحریک کی ضرورت ہے۔ البتہ پچھلی حکومت میں کچھ کام کیے گئے ہیں جو گرانقدر ہیں اور انھیں جاری رہنا چاہیے، ان میں کچھ دوسرے کاموں کا بھی اضافہ ہونا چاہیے۔

 

معاشی مسائل کو بڑے مسائل کی نظر سے بھی دیکھنا چاہیے - قومی کرنسی کی قدر کا مسئلہ، پیداوار کا مسئلہ، سرمایہ کاری کا مسئلہ، کام کاج اور روزگار کے ماحول کو بہتر بنانے کا مسئلہ، بنیادی مسائل - اور لوگوں کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کی نظر سے بھی دیکھنا چاہیے کہ جو ایک فوری و قلیل مدت کام ہے۔ کام کیا جا سکتا ہے اور ان شاء اللہ انجام پائے گا۔ البتہ دونوں میدانوں میں کام ہوئے ہیں اور بہتر ہوگا کہ انھیں جاری رکھا جائے۔

 

اگلی سفارش، الیکشن سے پیدا ہونے والے ایک عمومی جذباتی ماحول سے متعلق ہے اور اس کے مخاطب سبھی عام لوگ اور سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ بہرحال الیکشن چیلنجنگ ہوتا ہے، الیکشن میں لوگ، دو طرف ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے سامنے ہوتے ہیں، کچھ اختلافات وجود میں آتے ہیں، دو دھڑوں میں بانٹنے والے وسوسوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے، ان کا اثر نہیں لینا چاہیے، اس پر میری بہت زیادہ تاکید ہے۔ ان جذبات کو، جو انتخابات کے دوران لوگوں کو ایک دوسرے سے مقابلہ آرائي کے لیے آمادہ کرتے تھے، جاری نہیں رہنا چاہیے، انھیں جاری نہ رہنے دیجیے۔ الیکشن کی خصوصیت یہی تو ہے: ایک کو ووٹ ملتے ہیں، ایک کو ووٹ نہیں ملتے، یہ الیکشن کا نتیجہ ہے۔ الیکشن کا مطلب یہی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص جسے آپ پسند کرتے ہیں، جیت جاتاہے اور ایک شخص جسے کوئي دوسرا پسند کرتا ہے، جیت نہیں پاتا، یہ فطری بات ہے، یہ چیز رنجش اور کینے کا سبب نہ بنے، یہ چیز اختلاف، خلیج اور ایک دوسرے سے جدائي کی وجہ نہ بنے۔ اسلامی جمہوریہ میں انقلاب کی کامیابی سے لے کر اب تک مختلف خیالات اور مختلف رجحانات کے لوگ اقتدار میں آئے، پھر چلے گئے، کسی کو آج ووٹ ملا ہے، کل کسی دوسرے کو ملے گا، اس کا برعکس بھی ہوتا ہے، یہ وہی "وَ تِلکَ الاَیّامُ نُداوِلُھا بَینَ النّاس"(2) ہے، یہ امتحان ہے۔ میری عرض یہ ہے کہ اب تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں، ان میں ایرانی قوم فاتح رہی ہے، ہمیں شکست نہیں ہوئي ہے۔ جو لوگ میدان میں آئے اور انھوں نے کسی امیدوار کی حمایت کی، اس امیدوار کو ووٹ نہیں ملے تو انھیں شکست نہیں ہوئي، وہ بھی فاتح ہیں، وہ بھی ایرانی قوم کا ہی تو حصہ ہیں، ایرانی قوم فتحیاب ہے۔ بنابریں وہ رنجش اور کینے یا آزردگي کی صورتحال جو ممکنہ طور پر کسی انتخابی مباحثے کے دوران پیدا ہوئي ہو، اسے جاری نہیں رہنا چاہیے۔ نہ اس شخص کو غرور میں مبتلا ہونا چاہیے جس کا امیدوار جیت گيا ہے اور نہ اس شخص کو شکست محسوس کرنی چاہیے جس کا امیدوار الیکشن میں ہار گيا ہے، یہ دونوں ہی باتیں نہیں ہونی چاہیے۔ نہ تو اِسے غرور میں مبتلا ہونا چاہیے اور نہ ہی اُسے شکست محسوس کرنی چاہیے۔ تو یہ ہماری اگلی سفارش تھی جس کے مخاطب تمام سیاسی، سماجی، انتخابی اور ایسے ہی دوسرے میدانوں کے کارکن ہیں۔

 

اگلی سفارش، ملک کی داخلی صلاحیت کی قدر شناسی اور ملکی صلاحیت پر بھروسہ ہے۔ اس سفارش کے مخاطَب محترم ذمہ داران ہیں جو ان شاء اللہ ملک کے امور کو آگے بڑھانے، ملک کی پیشرفت اور ملک کی انتظامیہ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیں گے۔ وہ ملک کی داخلی صلاحیت کو اہمیت دیں۔ "ہم کر سکتے ہیں" ایک دائمی نعرے کے طور پر باقی رہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ البتہ اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم غیر ملکی توانائيوں سے فائدہ نہ اٹھائيں، کوئي بھی عقلمند یہ بات نہیں کر سکتا، تمام وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہیے، چاہے وہ ملکی ہوں یا غیر ملکی۔ ہمارے دوست یہاں تک کہ کبھی کبھی ہمارے دشمن کوئي ایسا کام کرتے ہیں جو ہمارے فائدے میں ہوتا ہے، اس سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے، استفادہ کرنا چاہیے لیکن ملکی صلاحیتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کسی بھی داخلی مسئلے کو کسی غیر ملکی مسئلے پر منحصر نہیں کرنا چاہیے۔ میری عرض یہ ہے۔ آپ عالمی سطح پر جو بھی کام کر سکتے ہیں، کیجیے، اچھے کام، عزت بڑھانے والے کام، شرافت مندانہ کام کیجیے لیکن ملکی صلاحیت، ملکی طاقت اور ملکی جدت طرازیوں کی طرف سے غفلت نہ کیجیے، میری تاکید اس پر ہے اور البتہ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

 

ہماری اگلی سفارش خارجہ پالیسی سے متعلق مسائل کے بارے میں ہے۔ میں خارجہ پالیسی کے سلسلے میں جو پہلی بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ عالمی بالخصوص علاقائي واقعات اور امواج کے سلسلے میں ملک کا رویہ، لاتعلقی والا نہیں بلکہ فعال و سرگرم اور پراثر ہو۔ دنیا میں سیاسی لحاظ سے، علمی و سائنسی لحاظ سے، پیشرفت اور غیر معمولی اور عجیب و غریب سائنسی ایجادات جیسے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے لحاظ سے مختلف واقعات سامنے آتے ہیں، ان کے ساتھ آپ کا رویہ سرگرم ہونا چاہیے، لاتعلقی والا نہیں بلکہ پراثر رویہ ہونا چاہیے۔ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں غفلت اور تغافل جائز نہیں ہے۔ جو بھی واقعہ ہوتا ہے، اس کے بارے میں ہمارا ایک موقف ہے، اس موقف کو ہم کھل کر، واضح الفاظ میں، ٹھوس طریقے سے اور متانت کے ساتھ بیان کریں تاکہ دنیا سمجھ جائے اور جان جائے کہ اس معاملے میں ایران کیا کہتا ہے۔ تیرہویں حکومت نے اس سلسلے میں اچھی کوشش کی تھی۔ خدا غریق رحمت کرے شہید خدمت مرحوم امیر عبداللہیان(3) کو، بڑے اچھے سفارتکار تھے، بڑے اچھے مذاکرات کار تھے، ان کی کوششیں اور فعالیت اچھی تھی، میں قریب سے ان کے کاموں کو دیکھتا تھا، وہ اچھی طرح آگے بڑھتے تھے، اچھا کام کرتے تھے۔ ان شاء اللہ یہ فعالیت اور کوشش جاری رہے۔

 

خارجہ پالیسی کے سلسلے میں ہماری ایک بات یہ ہے کہ غیر ملکی رابطوں میں ہماری کچھ ترجیحات ہیں، ان میں سے ایک ترجیح ہمارے ہمسایوں کے سلسلے میں ہے۔ ہم ان ممالک میں سے ایک ہیں جن کے متعدد ہمسائے ہیں، یہ کسی بھی ملک کے امتیازات میں سے ایک ہے۔ ہمارے اطراف میں قریب چودہ ہمسائے ہیں، یہ ہمارے لیے ایک امتیاز ہے۔ ہمیں اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات پر کام کرنا چاہیے، کوشش کرنی چاہیے، یہ ہماری ترجیحات میں سے ایک ہے۔

 

ایک ترجیح ان ملکوں سے رابطہ ہے جو ہماری سفارتکاری کے میدان کو وسعت دے سکتے ہیں، مثال کے طور پر افریقی ممالک، ایشیائي ممالک، یہ ہماری سفارتکاری کے میدان کو وسعت دیتے ہیں، ان سے رابطہ، ترجیحات میں سے ایک ہے۔

 

ایک اور ترجیح، ان ممالک کے ساتھ مضبوط رشتہ ہے جنھوں نے ان برسوں میں دباؤ کے مقابل ہماری حمایت کی ہے، ہماری مدد کی ہے، چاہے اقوام متحدہ میں، چاہے اقوام متحدہ سے باہر، چاہے عملی میدان میں، معاشی تعاون وغیرہ کر کے ہماری حمایت کی، ہمیں قدر شناسی کرنی چاہیے، ہمیں ان سے اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہیے، یہ ہماری ترجیحی پالیسی ہے اور اس سلسلے میں اس طرح کے ترجیحی کام پائے جاتے ہیں۔

 

البتہ ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ بعض ممالک سے مثال کے طور پر یورپی ممالک سے، جن کا میں نے ترجیحات میں ذکر نہیں کیا، مخالفت کا کوئي محرک یا جذبہ ہے، نہیں۔ میں ترجیح کی حیثیت سے یورپی ممالک کا ذکر نہیں کر رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ کئي سال سے ہمارے ساتھ ان کا رویہ اچھا نہیں ہے، ہمارے ساتھ ان کا سلوک ٹھیک نہیں رہا ہے۔ پابندیوں کے مسئلے میں، تیل کے مسئلے میں، مختلف معاملوں میں، انسانی حقوق وغیرہ کے جعلی عنوانوں میں ان کا رویہ ہمارے ساتھ برا رہا ہے۔ اگر وہ یہ برا رویہ چھوڑ دیں تو یہ ممالک بھی ہماری ترجیحات میں ہیں، یہ ممالک بھی ایسے ہیں جن سے تعلقات ہمارے لیے ترجیح رکھتے ہیں۔ البتہ کچھ ممالک ہیں جن کی اذیتوں کو، جن کے دشمنانہ رویے کو ہم فراموش نہیں کریں گے۔ تو یہ، اس مسئلے میں ہماری بات تھی۔ یہ کچھ سفارشات تھیں جو ہم نے عرض کر دیں۔

 

غزہ کا مسئلہ وہ آخری بات ہے جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ آج یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ کبھی فلسطین کا مسئلہ صرف، اسلامی دنیا کا ایک مسئلہ تھا، آج فلسطین کا مسئلہ اور غزہ کا مسئلہ، دنیا کا ایک عمومی مسئلہ ہے۔ امریکی کانگریس کے اندر سے لے کر اقوام متحدہ تک پیرس اولمپک تک اور دوسری تمام جگہوں تک آج یہ مسئلہ سامنے ہے اور پھیلتا جا رہا ہے۔ صیہونی حکومت اپنا چہرہ، ایک مجرم گینگ کے سب سے بدنما چہرے کے طور پر پیش کر رہی ہے، دکھا رہی ہے۔ یہ حکومت نہیں ہے، یہ ایک مجرم گينگ ہے، ایک قاتل گینگ ہے، ایک دہشت گرد گینگ ہے۔ صیہونیوں نے قتل، سنگدلی اور جرم، عجیب و غریب جرائم میں انسان کے جرائم کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا ہے، ایک نیا نصاب ایجاد کیا ہے۔ آج صیہونیوں کے بڑے بڑے بم اُن لوگوں پر گرائے جا رہے ہیں جنھوں نے ایک گولی تک فائر نہیں کی ہے، جھولے کے بچے، پانچ چھے سال کے بچے، عورتیں، اسپتالوں کے مریض انھوں نے کسی پر ایک بھی گولی نہیں چلائي ہے لیکن ان پر بم گرائے جا رہے ہیں، کیوں؟ یہ ایسا جرم ہے جس کی مثال نہیں ہے۔ مزاحمت کی طاقت روز بروز زیادہ نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔ صیہونی دشمن امریکا کی تمام تر مدد اور بعض خیانت کار حکومتوں کی جانب سے کی جانے والی بھرپور مدد کے باوجود، مزاحمتی فورس کو ہرا نہیں سکا ہے، اس پر غالب نہیں آ سکا ہے۔ انھوں نے جس ہدف کا اعلان کیا تھا وہ حماس کا مکمل خاتمہ تھا، آج فلسطین میں حماس پوری طاقت کے ساتھ، جہاد (اسلامی) اور کل ملا کر مزاحمتی فورسز پوری طاقت کے ساتھ ڈٹی ہوئي ہیں اور صیہونی ان کا کچھ بگاڑ نہیں پا رہے ہیں۔ اس لیے غزہ کے مظلوم عوام پر بم گرا رہے ہیں۔ دنیا کو اس مسئلے کے بارے میں زیادہ سنجیدگي سے فیصلہ کرنا چاہیے۔ حکومتوں کو، اقوام کو، مختلف میدانوں میں فکری و سیاسی شخصیات کو پوری سنجیدگي سے فیصلہ کرنا چاہیے، پھر اس سوچ کے ساتھ انسان سمجھ سکتا ہے کہ امریکی کانگریس نے پرسوں اپنی کتنی بڑی رسوائي کرائي کہ وہ اس مجرم کی باتیں سننے کے لیے بیٹھی اور اس کی باتیں سنیں۔(4) یہ بہت بڑی رسوائي اور بہت بڑا کلنک ہے۔

 

ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال فلسطین کی مظلوم قوم کو فتحیاب کرے گا۔ ہمیں امید ہے خداوند متعال ایران اسلامی کی عزیز، عظیم اور پرجوش قوم کو اس کے اعلیٰ اہداف تک پہنچائے گا۔ خداوند متعال سے دل سے دعا کرتے ہیں ہیں کہ وہ ہمارے عزیز نئے صدر اور ان کی حکومت کو، جو تشکیل پائے گي، توفیق عطا کرے اور مدد کرے کہ وہ ان کاموں کو، جنھیں وہ انجام دینا چاہتے ہیں، جن کے لیے کوشاں ہیں اور جن کا اعلان کر رہے ہیں، ان شاء اللہ ان اعلیٰ اہداف کو عملی جامہ پہنائيں اور ایرانی قوم کو سرفراز کریں۔ ہم خداوند عالم سے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی روح اطہر، شہیدوں کی پاکیزہ ارواح، شہید سلیمانی کی روح، شہید رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی روح کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کرتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم ہمیں بھی شہیدوں کے قافلے میں شامل کر دے۔

 

و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و‌ برکاتہ

 

(1) اس ملاقات کے آغاز میں وزیر داخلہ جناب احمد وحیدی نے انتخابات کے انعقاد کے عمل کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی اور پھر رہبر انقلاب کے دفتر کے انچارج حجت الاسلام و المسلمین محمدی گلپایگانی نے صدارتی حکمنامے کی توثیق کا متن پڑھا جس کے بعد صدر جناب مسعود پزشکیان نے تقریر کی۔

 

(2) سورۂ آل عمران، آيت 140، "یہ تو (شکست و فتح کے) ایام ہیں جنھیں ہم لوگوں میں باری باری ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔"

 

(3) تیرہویں حکومت کے وزیر خارجہ شہید حسین امیر عبداللہیان

 

(4) امریکی کانگریس میں صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کی تقریر کی طرف اشارہ۔

ای میل کریں