اسلامی حکومتوں کا سرکشوں سے مقابلہ

اسلامی حکومتوں کا سرکشوں سے مقابلہ

افسوس تو اس بات کا ہے کہ بعض اسلامی ممالک یعنی وہ ممالک جہاں کی حکومتیں اسلام کے نام پر قائم ہیں ....

ہم سب ایک ایسے دن اکٹھے ہوئے ہیں  کہ جب دنیا کی تمام حکومتوں  میں  سے صدام کی غاصب حکومت نے بغیر کسی معقول اور قابل قبول جواز کے، بغیر کسی اطلاع اور خبر کے، بغیر کسی اشتعال کے دریا، ہوا اور زمین سے ایران پر حملہ کردیا اور اپنے زعم میں  کشور کشائی کرنا چاہتا تھا اور مسلمانوں کی خلافت ایک ایسا شخص سنبھالنا چاہتا تھا جس کا اسلام پر اعتقاد ہی نہیں  تھا۔

افسوس صد افسوس! جبکہ قرآن میں  ارشاد ہے کہ اگر مسلمانوں  کے دو گروہ آپس میں  اختلاف کرنے لگیں  تو آپ ان   کے درمیان مصالحت کرائیں  اور اگر ان میں  سے کسی ایک نے سرکشی کی، بغاوت کی تو اس سے اس وقت تک جنگ کرو جب تک وہ احکام خدا کے سامنے سر تسلیم خم نہ ہوجائے۔ آخر کس اسلامی ملک  نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ سرکش اور جارح کون ہے؟ اور کس نے حملہ کیا ہے؟ تاکہ تمام حکم خدا کے مطابق اس سے جنگ اور نبرد آزمائی کریں ۔ کس اسلامی حکومت پر یہ بات پوشیدہ ہے کہ صدام نے ہمارے ملک پر حملہ کیا اور سرکشی وبغاوت کا علم بلند کیا اور ہم پر ظلم کیا؟ کیوں  اسلامی ممالک خدا کی اس آیت { فَقاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتّیٰ تَفِيئَ اِلیٰ أَمْرِ اﷲ }  پر عمل نہیں  کرتے؟

افسوس تو اس بات کا ہے کہ بعض اسلامی ممالک یعنی وہ ممالک جہاں  کی حکومتیں  اسلام کے نام پر قائم ہیں ، یہ دیکھنے کے باوجود کہ صدام نے ظلم کیا ہے، سرکشی اور بغاوت کی ہے بغیر کسی علت ودلیل اور غلطی کے ایک اسلامی حکومت پر حملہ کیا ہے پھر بھی اس کی حمایت کا اعلان کرتی ہیں  یا بعض لوگ اس کی مدد کررہے ہیں ! ہم اسلامی مشکلات کو کس جگہ پیش کریں  اور حل کریں ؟ دنیا کے مسلمان اپنی مشکلات کس پلیٹ فارم پر حل کریں ؟ کیا عالمی اداروں  میں  جو کہ بڑی طاقتوں  کے آلہ کار ہیں  یا ایسی تنظیموں  میں  جن کا نام تو اسلامی ہے لیکن ان میں  اسلام نام کا کوئی نام ونشان تک نہیں ، حکومت ایران اپنا گلہ وشکوہ کس سے کرے؟ وہ قوم جس پر بغیر کسی جواز کے بغیر کسی وجہ کے حملہ کیا گیا وہ اپنے اس گلہ کو کس سے بیان کرے؟ ان تمام ممالک میں  کس حکومت سے اس بات پر تبادلہ خیال کرے؟ تمام اسلامی حکومتوں  پر قرآن کی نص کے مطابق واجب ہے کہ حکومت عراق سے جنگ کریں  تاکہ وہ ذکر خدا اور امر خدا کی طرف لوٹ آئے۔

(صحیفہ امام،ج ۱۴، ص ۱۳۶)

ای میل کریں