تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
کرمان اہل مزاحمت کا شہر ہے، ایران عراق جنگ میں بھی اہل کرمان نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ شہید مزاحمت جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد یہ خطہ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا۔ یہ بات طے تھی کہ اہل غزہ کی شاندار مزاحمت سے بین الاقوامی قوتوں اور اسرائیل جو جگ ہنسائی ہوئی ہے، ایسے میں یہ لوگ ضرور مسلم زمینوں کو بدامنی کا شکار کریں گے۔ دشمن اس حد تک گر جائے گا کہ برسی کے پروگرم میں شریک نہتے اور عام لوگوں پر حملہ آور ہو جائے گا۔؟ اس کی امید فقط اسرائیلی رجیم سے ہی کی جا سکتی ہے۔ اہل کرمان کے جوان لڑتے ہوئے میدان جنگ میں شہید ہوں، اہل کرمان اس پر فخر کرتے ہیں، مگر یہاں سکول، کالج کے بچوں، خواتین اور بزرگوں پر دہشتگردی کی گئی ہے۔
امریکی ترجمان نے کہا کہ اس میں امریکہ کے ملوث ہونے کی بات مضحکہ خیز ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اسرائیل ایسا کرے۔ یعنی ڈھٹائی کی اعلیٰ منزل پر فائز ہیں، دنیا بھر میں ظلم و جبر کرتے ہیں اور مظلوم و مقہور اقوام کو یہ حق بھی نہیں دیتے کہ اصل قاتلوں کو جان سکیں۔ اب دنیا کی آنکھیں کھل چکی ہیں، آپ ایک سو بار دنیا کیا آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کریں، مگر اب عام انسان بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اس بربریت کو امریکہ اور اسرائیل کی ملی بھگت سے انجام دیا گیا ہے۔
یہ ایک واقعہ نہیں ہے، شام میں پاسداران کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل سید رضا موسوی کو شہید کیا گیا، بیروت میں حماس کے رہنماء، حماس کے نائب سربراہ صالح العاروری کو ایک ڈرون حملے میں شہید کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں صرف ایک اسرائیل ہی ہے، جو کسی بھی پڑوسی ملک کے بارڈرز کا احترام نہیں کرتا اور آئے روز وہاں حملے کرتا رہتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کچھ لوگ اس حوالے سے کسی حساسیت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ کئی جگہوں پر کہا کہ لبنان ہو یا شام، یہ آزاد اور خود مختار ممالک ہیں، ان کے بارڈر کی خلاف ورزی اور وہاں حملہ کرنا ایسے ہی ہے، جیسے کوئی ملک لندن، نیویارک اور پیرس پر حملہ کر دے۔
جنتے ردعمل کا حق امریکہ، فرانس اور برطانیہ کو ہوگا اتنا ہی اپنی خود مختاری کے تحفظ کا حق لبنان کو حاصل ہے۔ اہل لبنان نے جس طرح شہید کے جنازے میں بھرپور شرکت کی اور جس طرح سے اسے خراج تحسین پیش کیا گیا، یہ بتاتا ہے کہ اہل لبنان نے اپنے مہمان کے خون کو اپنا خون سمجھا ہے۔ بہت سے مغربی دفاعی ماہرین نے اسرائیل کو سمجھایا تھا کہ وہ عملی طور پر غزہ میں نہ جائے، اس سے اس کی مشکلات میں شدید اضافہ ہوگا اور ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسرائیل امریکی اسلحے اور مال کے زور پر غزہ میں داخل ہوگیا، مگر اب تین مہینے ہو رہے ہیں اور یہ بری طرح پھنس چکا ہے۔
اچھی زندگی کے لالچ میں لائے گئے آباد کار بڑی تیزی سے اپنے اصل ممالک میں واپس جا رہے ہیں، اگر آپ اسرائیل سے یورپ جانے والی فلائٹس کی تعداد دیکھیں تو پتہ چلے گا جیسے منظم ترک وطن کا سلسلہ چل رہا ہے۔ جو اہل غزہ کو راتوں رات سینا میں پہنچانے کی دھمکیاں اور مشورے دے رہے تھے، انہیں خبر ہو کہ اہل غزہ پوری استقامت کے ساتھ غزہ میں موجود ہیں۔ تم نسل کشی کر رہے ہو، مگر وہ وہیں پر موجود ہیں۔ اسرائیلی فوج اور وزیراعظم میں اختلافات چل رہے ہیں، مصر اور غزہ کے دمیان سرحد پر اسرائیلی قبضے کی کوششیں چل رہی ہیں، کیونکہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اب بھی یہیں سے مدد آرہی ہے۔ اس پر مصر کو شدید تحفظات ہیں۔
حزب اللہ اور اہل یمن نے اس جنگ میں اہل فلسطین کی بڑی عملی مدد کی ہے۔ رعائت اللہ فاروقی نے حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا ہے، لکھتے ہیں، حزب اللہ نے شمالی اسرائیل کو مستقل نشانے پر رکھ لیا تھا اور وار اسکلیشن مینجمنٹ کی ایک شاندار مثال قائم رکھی۔ اسکلیشن منیجمنٹ میں درحقیقت حملوں کا درجہ حرارت اتنا رکھا جاتا ہے کہ دشمن روز چھوٹے چھوٹے زخم کھاتا رہے، روز اس کا خون رِستا رہے مگر یہ نہ لگے کہ کوئی باقاعدہ جنگ چل رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہوتا یہ ہے کہ کچھ مدت بعد جب کیلکولیشن کی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ سو ٹینک تباہ ہوگئے ہیں۔ بہت سے فوجی ہلاک، بہت سے زخمی ہوچکے ہیں اور املاک کو اربوں کا نقصان پہنچ چکا ہے۔
اگر آپ اس زاویہ نظر سے صرف حزب اللہ کی کارکردگی کا جائزہ لیں، جس کی ویڈیوز سینکڑوں کی تعداد میں دستیاب ہیں اور آپ عسکری شعور رکھتے ہوں تو یہ کہے بغیر رہ ہی نہیں سکتے کہ ویلڈن حزب اللہ۔ شمالی اسرائیل میں حزب اللہ وار اسکلیشن کا حاصل یہ ہے کہ ہلاکتیں اور تباہی اپنی جگہ، صرف یہی دیکھ لیجئے کہ وہاں سے انخلاء کرنے والے ایک لاکھ شہریوں کو اسرائیل کی حکومت ہوٹلوں میں پناہ دینے پر مجبور ہے۔ جس سے اسرائیل کو اربوں ڈالر کے بوجھ کا سامنا ہے۔ اہل یمن نے اسرائیل کی سپلائی لائن توڑ دی ہے، امریکی اور یورپی حیران ہیں کہ اتنی دقیق انفارمیشن کے ساتھ ریڈ سی میں فقط اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنانہ بڑی بات ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ عراق و شام میں بھی بڑے پیمانے پر امریکی اڈوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ پورا خطہ گویا بارود کا ڈھیر بنا ہوا ہے، کوئی ایک واقعہ بھی ہر طرف آگ لگا دے گا۔ مزید محتاط ہونے کی ضرورت ہے، دنیا بھر میں مسلم فسادات کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس تمام صورتحال میں اسرائیلی کوشش یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو جنگ میں گھسیٹا جائے اور یورپ کے ساتھ اسے لڑا کر اپنی ہار کو چھپایا جائے، مگر اب دنیا کو اسرائیلی طریقہ واردات کا پتہ ہے۔ مشاہد حسین سید کی سینیٹ کی تقریر نے دل خوش کر دیا۔ اس میں انہوں نے اہل فلسطین کی کارروائی کی بڑے کھلے انداز میں حمایت کی ہے اور طوفان الاقصی کو اہل فلسطین کا حق کہا ہے۔