مجالس کا سیاسی پہلو ان کے دیگر پہلوؤں سے بالاتر ہے:(امام خمینی)
اس زمانہ میں ایک بات ہر ایک کی زبان پر رائج تھی کہ ”رونے والی قوم“ تاکہ مجلسوں کو ان سے چھین لیں۔ اس زمانہ میں جو تمام مجلسوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور وہ بھی اس شخص کے ذریعہ جو خود بھی مجلسوں میں جاتا تھا اور ویسے تماشے کرتا تھا۔ بات صرف مجلس کی تھی یا مجلس سے وہ کچھ اور سمجھتے تھے اور اسے نابود کرنا چاہتے تھے؟ عمامہ یا ٹوپی کا مسئلہ تھا یا عمامہ اورٹوپی سے کچھ اور سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے عمامہ کی مخالفت کرتے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اس عمامہ سے وہ کام ہوتا ہے۔ کہ وہ لوگ اپنے منصوبوں پر عمل نہیں کر پاتے۔ اور مجالس عزاداری اس قدر موثر ہیں کہ وہ لوگ اپنے ناپاک منصوبوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے ۔ چونکہ ماہ محرم میں ایک ملت پورے ملک میں ایک ہی بات کہتی ہے۔ مجلسیں لوگوں کو یوں جمع کرکے یکسو کرتی ہیں کہ تین ساڑھے تین کروڑ کی جمعیت ماہ محرم و صفر اور خاص کر عاشورا کے دن یکسو ہو کر ایک ہی طرف چلتی ہے ان کو خطبا اور علماء پورے ملک میں کسی ایک مسئلہ پر آمادہ و منظم کرسکتے ہیں۔ مجالس کا یہ سیاسی پہلو ان کے دیگر پہلوؤں سے بالاتر ہے۔ اور واقعاً ایسا ہی ہے۔
وہ دیکھتے ہیں کہ یہ مجالس عزا اور مظلوم کے مصائب اور ظالم کے ظلم کے تذکرے ہر دور میں ظلم کے مقابلہ پر آمادہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ متوجہ نہیں ہیں کہ وہ اسلام اور کی خدمت کررہے ہیں۔ ہمارے جوان متوجہ نہیں ہیں ان بڑوں کے دھوکہ میں نہ آیئے۔ یہ خائن ہیں یہی آپ کو باور کراتے ہیں کہ آپ رونے والی قوم ہیں یہ خیانت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ان کے بڑے اور ارباب اس گریہ سے ڈرتے ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ رضاخان نے آکر ان سب پر پابندی عائد کردی اور جب رضاخان کا دور ختم ہوا تو انگریزوں نے ریڈیو دہلی سے اعلان کیا کہ ہم اسے لائے تھے اور اب ہم نے ہی اس کو برطرف کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بجا بھی تھا وہ اسے اسلام کو مٹانے کے لئے لائے تھے جس کا ایک طریقہ یہی تھا کہ ان مجالس کو آپ سے چھین لیں۔ ہمارے جوان یہ نہ سوچیں کہ جب مجلس میں جاتے ہیں اور مصائب کے تذکرے سے روکتے ہیں تو خدمت کررہے ہیں۔ ان کا یہ کہنا غلط ہے مصائب کا تذکرہ ہونا چاہئے۔ داستان ظلم دہرائی جائے تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ اس وقت کیا واقعہ رونما ہوا اور یہ کام ہر روز ہونا چاہئے۔ یہ کام سیاسی اور اجتماعی نوعیت کا ہے۔