حج سامراج اور صیہونیت کی تمام سازشوں کو ناکام اور بے اثر بنا سکتا ہے، آیت اللہ العظمی خامنہ ای

حج سامراج اور صیہونیت کی تمام سازشوں کو ناکام اور بے اثر بنا سکتا ہے، آیت اللہ العظمی خامنہ ای

حج ابراہیمی کی صلائے عام اور اس کی عالمی دعوت نے ایک بار پھر تاریخ کی گہرائيوں سے پوری دنیا کو مخاطب کیا اور ذکر خدا کرنے والے مشتاق دلوں میں ہلچل مچا دی

اسلام ٹائمز۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حج بیت اللہ کی مناسبت سے پیغام میں کہا ہے کہ حج آج اور آئندہ کل کے انسان کے اخلاقی زوال کی موجب سامراج اور صیہونیت کی تمام سازشوں کو ناکام اور بے اثر بنا سکتا ہے۔ اس عالمی تاثیر کی ضروری شرط یہ ہے کہ مسلمان قدم اول کے طور پر حج کے حیات بخش خطاب کو پہلے خود صحیح طریقے سے سنیں اور اسے عملی جامہ پہنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حجاج کرام کے نام پیغام جاری کیا جو حسب ذیل ہے۔

 

والحمد للہ ربّ العالمین و صلّی اللہ علی الرسول الاعظم محمد المصطفی و آلہ الطیبین و صحبہ المنتجبین

 

حج ابراہیمی کی صلائے عام اور اس کی عالمی دعوت نے ایک بار پھر تاریخ کی گہرائيوں سے پوری دنیا کو مخاطب کیا اور ذکر خدا کرنے والے مشتاق دلوں میں ہلچل مچا دی۔ داعی کی آواز بنی نوع انسان کی فرد فرد کے لئے ہے: "و اَذِّن فی الناس بالحجّ" (اور لوگوں میں حج کی عام منادی کر دیجیے) اور کعبہ، تمام انسانوں کا مبارک میزبان اور رہنما ہے: "انّ اوّلَ بیتٍ وُضع للنّاس للّذی ببکّۃ مبارکاً و ھدیً للعالمین" (بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا، وہی ہے جو مکے میں ہے، بڑی برکت والا اور عالمین کے لئے مرکز ہدایت ہے)۔ تمام مسلمانوں کی توجہ کے مرکز پرکار اور اصلی محور کی حیثیت کے حامل کعبہ اور عالم اسلام کے گوناگوں جغرافیا کے ایک چھوٹے سے مرقعے کی حیثیت سے حج کا پروگرام، انسانی معاشرے کے عروج اور تمام انسانوں کے امن و سلامتی کا ضامن بن سکتا ہے۔ حج، پوری انسانیت کو معنوی عروج اور روحانی و اخلاقی ارتقاء کی اعلی ترین منزل پر پہنچا سکتا ہے اور یہ آج کے انسان کی حیاتی ضرورت ہے۔

 

حج آج اور آئندہ کل کے انسان کے اخلاقی زوال کی موجب سامراج اور صیہونیت کی تمام سازشوں کو ناکام اور بے اثر بنا سکتا ہے۔ اس عالمی تاثیر کی ضروری شرط یہ ہے کہ مسلمان قدم اول کے طور پر حج کے حیات بخش خطاب کو پہلے خود صحیح طریقے سے سنیں اور اسے عملی جامہ پہنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔ اس خطاب کے دو بنیادی ستون، اتحاد اور معنویت ہیں۔ وحدت و روحانیت، عالم اسلام کی مادی و معنوی پیشرفت کی ضامن ہے اور یہ پوری دنیا پر ضو فشانی کر سکتی ہے۔ اتحاد کا مطلب، فکری اور عملی رابطہ ہے، یہ دلوں، افکار اور مواقف کے قریب ہونے سے عبارت ہے، اس کا مطلب علمی و تجرباتی تعاون ہے، یہ اسلامی ملکوں کے معاشی رشتے کے معنی میں ہے، مسلم حکومتوں کے باہمی اعتماد و تعاون کے معنی میں ہے، یہ مسلّمہ اور مشترکہ دشمنوں کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کے معنی میں ہے، وحدت کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کی تیار کردہ سازش، اسلامی فرقوں یا عالم اسلام کی مختلف قوموں، نسلوں، زبانوں اور ثقافتوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل نہ لا سکے۔

 

اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ مسلم اقوام ایک دوسرے کو دشمن کے فتنہ انگیز تعارف سے نہیں بلکہ آپسی رشتوں، بات چیت اور آمد و رفت سے پہچانیں، ایک دوسرے کے وسائل اور صلاحیتوں سے واقف ہوں اور ان سے استفادے کے لیے پروگرام تیار کریں۔ اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ عالم اسلام کے سائنسدان اور یونیورسٹیاں ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملائيں، اسلامی مذاہب کے علماء ایک دوسرے کو حسن ظن، رواداری اور انصاف پسندی کی نظر سے دیکھیں اور ایک دوسرے کی باتیں سنیں، ہر ملک اور ہر مذہب کے دانشور عوام کو ایک دوسرے کے مشترکات سے آشنا کریں اور انھیں باہمی زندگي اور اخوت کی ترغیب دلائيں۔ اسی طرح وحدت اس معنی میں ہے کہ اسلامی ملکوں میں سیاسی و ثقافتی رہنما پوری ہماہنگی کے ساتھ خود کو درپیش عالمی نظام کے حالات کے لیے تیار کریں، دنیا کے نئے تجربے میں، جو موقعوں اور خطروں سے بھرا ہوا ہے، امت اسلامی کے شایان شان مقام کو اپنے ہاتھوں سے اور اپنے ارادے سے یقینی بنائيں اور پہلی عالمی جنگ کے بعد مغربی حکومتوں کے ہاتھوں انجام پانے والے مغربی ایشیا کے سیاسی و علاقائی تغیرات کے تلخ تجربے کو دوہرائے جانے کی اجازت نہ دیں۔

 

معنویت، دینی اخلاق کے ارتقاء کے معنی میں ہے۔ دین کی نفی کے ساتھ اخلاق کی فسوں کاری کا انجام، جس کی عرصے تک مغرب کے فکری ذرائع کی جانب سے ترویج کی جاتی رہی، مغرب میں اخلاقیات کا تیز رفتار زوال ہے جس کا دنیا میں سبھی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ معنویت اور اخلاق کو، حج کے مناسک سے، احرام میں سادگي سے، خیالی امتیازات کی نفی سے، "واطعموا البائس الفقیر" (اور تنگ دست محتاج کو کھانا کھلاؤ) (کی تعلیم) سے، "لارَفَث و لافسوق و لاجدال" (حج کے دوران کوئی شہوانی فعل، کوئی بد عملی اور کوئی لڑائی جھگڑا نہ ہو) (کی ہدایت) سے، توحید کے محور کے گرد پر امید طواف سے، شیطان کو کنکریاں مارنے سے اور مشرکین سے اعلان برائت سے سیکھنا چاہیئے۔ حج کا فریضہ انجام دینے والے بھائيو اور بہنو! حج کے موقع کو اس بے نظیر فریضے کے رموز کے بارے میں گہرائی سے غور و فکر کرنے کے لئے استعمال کیجئے اور اپنی پوری عمر کے لئے توشہ تیار کر لیجئے۔

 

اتحاد اور معنویت کو ماضی سے کہیں زیادہ اس وقت سامراج اور صیہونیت کی دشمنی اور خلاف ورزیوں کا سامنا ہے اور سامراجی تسلط کی دوسری طاقتیں، مسلمانوں کے اتحاد اور مسلم اقوام، ممالک اور حکومتوں کے آپسی افہام و تفہیم اور ان اقوام کی نوجوان نسل کے جذبہ دینداری کی سخت مخالف ہیں اور ہر ممکن طریقے سے ان چیزوں پر حملے کر رہی ہیں، اس خباثت آمیز امریکی و صیہونی سازش کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہم سب کی اور تمام اقوام اور حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ خداوند علیم و قدیر سے مدد طلب کیجئے، اپنے اندر مشرکین سے اظہار برائت کے جذبے کو مضبوط بنایئے اور خود کو اپنی زندگی کے ماحول میں اسے پھیلانے اور مزید گہرائی عطا کرنے کا ذمہ دار سمجھئے۔ سبھی کے لئے خداوند عالم سے توفیق اور آپ ایرانی اور غیر ایرانی حجاج کے لئے 'مقبول و مشکور حج' کی دعا کرتا ہوں اور سبھی کے لئے حضرت بقیۃ اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کی مستجاب دعا طلب کرتا ہوں۔

 

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ

 

6 ذی الحجہ 1444 ہجری قمری

4 تیر 1402 مطابق 25 جون 2023ء

ای میل کریں