امام خمینی بیت المقدس کو مقدس اور اسلامی مقامات میں سے ایک سمجھتے تھے اور اس میں نماز پڑھنا مستحب جانتے تھے۔ 1962ء میں اسلامی تحریک کے آغاز سے ہی وہ قدس شریف کے بارے میں فکر مند تھے۔ قدس کے بارے میں امام خمینی کا مؤقف ایسی حالت میں تھا جب عالمی صیہونیت فلسطین اور قدس کے مسئلے کو عرب دنیا تک محدود کرنے کی کوششیں کر رہی تھی۔ 1962ء میں ایران میں اسلامی تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی امام خمینی نے ایرانی حکومت سے کہا کہ وہ اسرائیل اور بہائیوں سے اپنے تعلقات منقطع کردے اور تحریک کے تسلسل میں آپ نے بیت المقدس کو مسلمانوں کی طرف واپس کردینے پر زور دیا۔ اسرائیل کے ساتھ اپنی تعلقات کو چھپانے کے لیے پہلوی حکومت کے ایجنٹوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اسرائیل اور بہائی؛ عیسائی ریاستوں سے مختلف نہیں ہیں اور یہ سب ایک ہی ہیں۔ امام خمینی نے اس مسئلے کو نص قرآن کے خلاف اور اس غاصب ملک کی شناخت اور بہائی کے باطل فرقے کی حمایت کے لیے قرار دیا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو دین کے تقاضوں کے منافی قرار دیا اور ایرانی قوم کو اس عظیم گناہ سے پاک سمجھا۔
انقلاب اسلامی کے عروج پر، ایرانی عوامی تحریک کے لیے بین الاقوامی حمایت کی ضرورت کے باوجود، انھوں نے بیت المقدس اور فلسطین کو یاد کیا اور مصر کے صدر انور السادات اور میناچم بیگن کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے (1979/1357) کی مذمت کی جس میں بیت المقدس سے مصر کی جانب سے مسلمانوں کے حق سے دستبرداری کا مطالبہ کیا گیا۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بیت المقدس کی آزادی کا مسئلہ امام خمینی کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل تھا اور 17/ فروری 1979ء کو فلسطینی وفد اور یاسر عرفات سے ملاقات میں انہوں نے بیت المقدس کی آزادی کے بارے میں بات کی۔ اور ان سے کہا کہ وہ دشمن پر فتح اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے خدا پر بھروسہ رکھیں، وہ تمام طاقتوں سے بالاتر ہے۔ 12/ ستمبر 1980ء کو فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اسرائیل کے دارالحکومت کو بیت المقدس منتقل کرنے کے بارے میں خبردار کیا۔ اسلامی انقلاب کے ابتدائی دنوں میں فلسطینی سفارت خانے نے اسرائیلی سفارت خانے کی جگہ لے لی۔
امام خمینی نے ایران اور دنیا کے مسلمانوں کے نام ایک پیغام میں 7/ اگست 1979ء مطابق 13/ رمضان 1399ق کو فلسطینی عوام کی حمایت اور قدس کی آزادی کے لیے پوری دنیا کے مسلمانوں کی یکجہتی کے لیے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا اور آپ نے عوام الناس اور اسلامی حکومتوں سے کہا کہ وہ غاصب اسرائیل کا ہاتھ چھوٹا کرنے کے لیے ساتھ دیں۔ اور رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو جو یوم القدر میں سے ایک تھا اور فلسطینی عوام کی تقدیر کا تعین کر سکتا تھا، فلسطینی عوام کے قانونی حقوق کی حمایت میں اپنی یکجہتی کا اعلان کریں۔
عالمی یوم قدس کی خصوصیات
1979ء میں عالمی یوم قدس کے موقع پر امام خمینی نے مختلف طبقوں کے لوگوں سے خطاب میں یوم قدس کو اسلام کے احیاء کا دن، اسلامی حکومت کا دن، مظلوموں کو مستکبرین اور سپرپاورز سے مقابلہ کرنے کا دن قرار دیا۔ مظلوم اقوام کی تقدیر کے تعین کا دن اور مستکبروں پر مظلوم کی فتح کا دن، یوم ہمت، قدس کو بچانے کے لیے مسلمانوں نے تمام ممالک میں اسلامی جمہوریہ کے پرچم کو بلند کرنے اور منافقوں کو متعہد افراد سے پہچاننے کا دن قرار دیا اور یاد دہانی کراتے ہیں کہ متعہد افراد سے مراد وہ لوگ ہیں جو یوم قدس پر ایمان رکھتے ہیں اور منافق وہ ہیں جو یوم قدس کی تقریبات میں لوگوں کی شرکت کا راستہ روکتے ہیں۔ امام خمینی نے یوم قدس کو پیغمبر اکرم (ص) کا دن قرار دیا اور عوام سے کہا کہ وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ سپر پاورز کے خلاف کھڑے ہوں اور انہیں مسلمانوں کے معاملات میں مداخلت کرنے کی اجازت نہ دیں۔ 17/ اگست 1979ء کو اپنی ایک تقریر میں مستضعفین کی پارٹی کی تشکیل کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے یوم قدس کو مسلمانوں کی عمومی بسیج کا دن قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ یہ دن بسیج مستضعفان کی تشکیل اور ان کی آخری فتح کا آغاز ہوگا۔ اس کے بعد کے سالوں میں آپ نے لوگوں کو اس موقع پر اس دن کو منانے کا حکم بھی دیا، جیسا کہ 24/ رمضان المبارک 1400ھ / بمطابق 6/ اگست 1980ء کو، ایک پیغام میں انہوں نے لوگوں سے یوم القدس کو زندہ رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی رژیم فتح کی صورت میں مقبوضہ علاقوں پر اکتفاء نہیں کرے گی اور امریکہ بھی اس کے ساتھ شریک ہے اور اسے یروشلم کو دارالحکومت بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور اسرائیل کے خلاف سپر پاورز کا ہنگامہ فریب ہے۔
عالمی یوم قدس مارچ
عالمی یوم قدس کے موقع پر ہر سال رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو جلوس نکالا جاتا ہے۔ پہلا مارچ، 17/ اگست 1979ء بمطابق 23/ رمضان 1399 ہجری قمری کو ایران اور دیگر ممالک میں ہوا۔ تہران میں نماز جمعہ کے امام سید محمود طالقانی نے اسی دن نماز جمعہ کے خطبوں میں یوم القدس کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بیت المقدس تمام الہی مذاہب کا ہے اور ہر ایک کو اس کے دفاع کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
امام خمینی کا یہ اقدام اس کے بعد کے سالوں میں بھی جاری رہا اور ہر سال ایران اور دیگر ممالک میں بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔
امام خمینی (رح) کے انسائیکلوپیڈیا سے اقتباس، ج 5، ص 701