حقیقتِ حج

حقیقتِ حج کی شناخت، استقلال کا باعث

عظمت اسلام، آغاز اسلام میں تھی کہ جب ایک چھوٹی سی جماعت نے دو سپر طاقتوں کو ختم کردیا تھا

 

مشرقی ممالک اور اسلامی ممالک جب تک اسلام کو پا نہیں  لیتے باعزت زندگی نہیں  گزار سکتے۔ مسلمانوں  کو چاہیے کہ وہ اسلام کی جستجو کریں ۔ اسلام ان سے دور ہوگیا ہے۔ ہم آج نہیں  جانتے کہ اسلام کیا ہے؟ مغرب والوں  اور ان ظالموں  نے ہمارے ذہن غلط افکار سے اس قدر بھردئیے ہیں  کہ ہم نے اسلام کو گنوا دیا ہے۔ جب تک اسلام کو نہیں  پالیتے، اصلاح ناممکن ہے۔ اس مرکز، یعنی کعبہ معظمہ کہ جہاں  ہر سال مسلمان جمع ہوتے ہیں ، سے لے کر اسلامی ممالک کے آخر تک اسلام کا نام ونشان نہیں  ملتا۔ وہ نہیں  جانتے کہ اسلام کیا ہے! یہی وجہ ہے کہ مسلمان مکہ معظمہ میں  کہ جو ایسا مقام ہے کہ جسے اﷲ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں  کے روحانی اجتماع کیلئے مرکز قرار دیا ہے۔ جمع تو ہوتے ہیں  مگر نہیں  جانتے کہ وہ کیا کررہے ہیں! وہ اس سے اسلامی فائدہ نہیں  اٹھاتے۔ اس سیاسی مرکز کو ایسے امور میں  تبدیل کردیا ہے کہ جن کے سبب مسلمانوں  کے تمام مسائل غفلت کا شکار ہوگئے ہیں۔

 

اسلام کو تلاش کرنا چاہیے۔ مسلمان اگر حقیقت حج کو درک کرلیں ، اسلام کی طرف سے حج میں  جو سیاست اختیار کی گئی ہے، صرف اسی کو درک کرلیں  تو حصول استقلال کیلئے کافی ہے۔ لیکن افسوس ہم نے اسلام کو کھودیا ہے۔ وہ اسلام جو ہمارے پاس ہے اسے سیاست سے بالکل جدا کردیا گیا ہے۔ اس کا سر کاٹ دیاگ یا ہے۔ وہ چیز کہ جو مقصود اصلی تھی اس سے کاٹ کر جدا کردی گئی ہے اور بچا کھچا اسلام ہمیں  تھما دیا گیا ہے۔ ہم سب کو یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں  کہ ہم نہیں  جانتے کہ راز اسلام کیا ہے؟ ہم سب مسلمان جب تک اسلام کو درک نہیں  کرلیتے، اپنی عظمت اور وقار حاصل نہیں  کرسکتے۔

 

عظمت اسلام، آغاز اسلام میں  تھی کہ جب ایک چھوٹی سی جماعت نے دو سپر طاقتوں کو ختم کردیا تھا۔ وہ عظمت اسلام، کشور کشائی کی وجہ سے نہیں  تھی، بلکہ تعمیر انسانیت کی وجہ سے تھی۔ یہ خیال اشتباہ ہے کہ اسلام کشور کشائی کیلئے ہے۔ اسلام کشور کشائی نہیں  کرتا، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمام ممالک کے لوگ انسان بن جائیں۔ اسلام خواہشمند ہے کہ جو انسان نہیں  وہ انسان بن جائیں ۔ ایک جنگ میں  کچھ لوگوں  کو قیدی بنایا گیا، تاریخ میں  لکھا ہے کہ انہیں  (مسلمانوں  نے) باندھ رکھا تھا، انہیں  رسول اﷲ  (ص)  کے سامنے لایا گیا۔ آپ  ؐ نے فرمایا: ’’دیکھو مجھے چاہیے کہ میں  ان لوگوں  کو زنجیروں  کے ساتھ جنت میں  لے جاؤں ‘‘۔ اسلام معاشرے کی اصلاح کیلئے آیا ہے۔ اگر اس نے تلوار استعمال کی ہے تو وہ صرف اس لیے کہ جو لوگ فاسد ہیں  اور انہیں  چاہیے کہ معاشروں  کی اصلاح ہو، انہیں  ختم کیا جائے تا کہ دوسروں  کی اصلاح ہوجائے۔

(صحیفہ امام، ج ۱۰، ص۴۴۸ )

ای میل کریں