حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی نے اتوار کی صبح زراعت، میڈیکل، صنعت، ماحولیات، پانی اور بجلی گھر کی تعمیر کے شعبوں میں ایٹمی ایجادات و مصنوعات کی نمائش کا ڈیڑھ گھنٹے تک معائنہ کرنے کے بعد ملک کی ایٹمی صنعت کے کچھ افتخار آفریں سائنسدانوں، ماہرین اور عہدیداران سے ملاقات میں اس صنعت کو مختلف شعبوں میں ایران کی پیشرفت کی کنجی قرار دیا۔
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے لوگوں کی زندگي میں ایٹمی پیشرفتوں کا واضح اثر دکھائي دینے کے لیے ہمہ گیر کوشش کیے جانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انتہائي اہم ایٹمی صنعت کا مقامی صنعت میں تبدیل ہو جانا، مغرب کی ناکامی اور ان مغرب زدہ لوگوں کی فضیحت کی عکاسی کرتا ہے جو قوم کی بے عزتی اور ملک میں کام اور امید کے جذبے کو کمزور بنانے کے درپے تھے۔
انھوں نے ایران میں ایٹمی ہتھیار کی تیاری کے خوف کے بارے میں مغرب کے دعوے کو جھوٹا بتاتے ہوئے کہا کہ مغرب والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے کوشاں نہیں ہیں، جیسا کہ امریکا کی انٹیلی جنس کمیونٹی نے حالیہ مہینوں میں کئي بار اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اس بات کی کوئي نشانی نہیں ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی سمت میں بڑھ رہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کو، چاہے وہ ایٹمی ہتھیار ہوں یا کیمیائي، اسلام کے خلاف بتایا اور کہا کہ اگر یہ بنیادی اسلامی اصول نہ ہوتے اور ہم ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ رکتھے تو یہ کام کر چکے ہوتے اور دشمن بھی جانتے ہیں کہ وہ ہمیں روک نہیں پاتے۔
انھوں نے ایرانی قوم کی پیشرفت کی مخالفت کو، دشمنوں کی جانب سے ایٹمی صنعت میں رکاوٹیں ڈالے جانے کی اصل وجہ بتایا اور کہا کہ یہ صنعت، مختلف میدانوں میں ملک اور قوم کی زبردست پیشرفت کی کنجی ہے اور ساتھ ہی دشمن، دیگر اقوام کی جانب سے ایرانی قوم کی ترقی آفریں سوچ اور راہ کو آئيڈیل بنانے سے ہراساں ہیں۔ انھوں نے اسلامی جمہوریہ ایران سے دشمنوں کے بیس سالہ ایٹمی تنازعہ کو، متعدد حقائق کے واضح ہو جانے کا سبب بتایا جن میں لگاتار خطروں اور پابندیوں کے باوجود ایرانی نوجوانوں کی غیر معمولی صلاحیت اور توانائي کا سامنے آنا سب سے اہم ہے۔
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران کی پیشرفت کے مخالفوں کی غیر انسانی اور منہ زوری پر مبنی سوچ کے برملا ہو جانے کو دوسری حقیقت بتایا اور کہا کہ وہ لوگ، سیف گارڈ کے معاہدوں سے ہٹ کر بہت سی منہ زوری والی توقعات رکھتے ہیں، اگر وہ ایرانی قوم کو دھمکانے کے درپے نہیں ہیں تو کیوں ایرانی تنصیبات کی سیفٹی کے مخالف ہیں؟
انھوں نے ایٹمی فریقوں پر عدم اعتماد کو، ایران کے ساتھ مغرب کے بیس سالہ ایٹمی تنازعے میں آشکار ہونے والی تیسری حقیقت بتایا اور کہا کہ ان برسوں کے دوران ایٹمی فریقوں اور ایٹمی توانائي کی عالمی ایجنسی نے بہت سے وعدے کیے جو پورے نہیں ہوئے اور ہمیں پتہ چل گيا کہ کس پر اور کہاں بھروسہ کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے اور یہ بات سمجھنا کسی قوم کے لیے بہت اہم ہے، جیسا کہ اس مسئلے کی طرف عدم توجہ کی وجہ سے بہت سی جگہوں پر ہمیں چوٹ کھانی پڑی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے موجودہ ایٹمی وسائل کو، ایٹمی تنازعے کے آغاز یعنی سنہ 2003 کی نسبت سو گنا سے زیادہ بتایا اور کہا کہ دشمنوں نے اس صورتحال کو روکنے کے لیے جرائم اور دہشت گردانہ حملوں کا بھی سہارا لیا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے اور اس وقت ملک کی ایٹمی صنعت قوم کے جوانوں کی کوشش سے، ملک میں مقامی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور اب اسے ہرگز چھینا نہیں جا سکتا۔
انھوں نے اس سلسلے میں ایک ذیلی لیکن اہم نکتے یعنی نشاٴۃ ثانیہ (رنسانس) اور مغرب کے صنعتی انقلاب کے معاملے میں علم و سائنس اور مذہب کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ نشاٴۃ ثانیہ کا ایک اہم ہدف یہ تھا کہ سائنسی پیشرفت کے لیے مذہب و روحانیت کو کنارے کر دیا جائے جبکہ آج یعنی اس واقعے کے تقریبا پانچ سو سال بعد اسلامی جمہوریہ میں مغربی دنیا سے رقابت آرائي میں اہم ترین سائنسی کام انجام پا رہے ہیں اور وہ بھی ایسے عالم میں جب سائنس اور روحانیت اس طرح شیر و شکر ہو چکے ہیں کہ سائنسی پیشرفت کے اصل علمبردار مومن اور نماز شب پڑھنے والے نوجوان اور شہریاری اور فخری زادے جیسے افراد ہیں۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایٹمی صنعت کے عہدیداروں اور ذمّہ داروں کو کچھ اہم سفارشیں بھی کیں۔ انھوں نے صحت، صنعت، زراعت، ماحولیات اور پانی کو میٹھا بنانے جیسے زندگي کے مختلف میدانوں میں ایٹمی سائنس کے اثرات دکھائي دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بحمد اللہ یہ کام ہو رہا ہے اور میں تاکید کے ساتھ کہتا ہوں کہ عوام کی زندگي کو ایٹمی صنعت کی سائنسی پیشرفت سے بہرہ مند ہونا چاہیے۔
انھوں نے ایٹمی توانائي کے شعبے کے عہدیداروں کو سفارش کی کہ وہ عوام کو ایٹمی صنعت کے مفید اثرات سے باخبر کریں۔ انھوں نے ایٹمی مصنوعات اور سروسز کے کمرشلائزیشن کی توسیع اور دنیا کے وسائل اور پیشرفت سے زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہونے کے لیے ہم خیال اور غیر معاند ممالک کے ساتھ سائنسی تعاون میں اضافے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے کچھ سال پہلے بیس ہزار میگاواٹ ایٹمی بجلی کی پیداوار کی جو بات کہی تھی اس پر سنجیدگي سے کام کیا جائے اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اس ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں دنیا میں رائج کم گنجائش والے بجلی گھروں کی تیاری کو ضروری بتایا اور کہا کہ مختلف شعبوں میں ملک کو اس طرح کے بجلی گھروں کی ضرورت ہے۔
انھوں نے ایٹمی توانائي کے شعبے کے عہدیداروں کو افرادی قوت کے احترام اور حفاظت کی پرزور سفارش کی اور کہا کہ اس وقت ایٹمی شعبے کے اسٹوڈنٹس کی تعداد بہت کم ہے، جسے کم از کم دس گنا بڑھنا چاہیے اور اس سبجیکٹ کی خاص مشکلات اور سختیوں کی تلافی کے ساتھ ہی موجودہ سائنسدانوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جانا چاہیے اور ان کی حفاظت کو سنجیدگي سے لینا چاہیے۔
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سیف گارڈ کے قوانین کے تناظر میں آئي اے ای اے کے ساتھ تعاون، رابطے اور لین دین کو ضروری بتایا اور کہا کہ ایٹمی صنعت کے مختلف عہدیداروں کو شروع سے میری سفارش یہی تھی، البتہ سیف گارڈ کے قوانین کے دائرے سے باہر کسی بھی طرح کے دباؤ میں نہ آئيے۔
انھوں نے اس ملاقات میں، ایٹمی توانائي کے ادارے کے عہدیداروں سے زور دے کر کہا کہ وہ ایٹمی صنعت کے موجودہ انفراسٹرکچر کی حفاظت کریں۔ انھوں نے اس سلسلے میں کہا کہ پچھلے برسوں کے دوران، ایٹمی صنعت کے اہم افراد، عہدیداروں اور کارکنوں نے اہم انفراسٹرکچر تیار کیے ہیں، خیال رہے کہ سمجھوتوں میں ان پر کوئي آنچ نہ آنے پائے۔
اس ملاقات میں ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ جناب اسلامی نے ایٹمی صنعت کے تحرّک اور اقتدار کو اس ادارے کا مستقل ایجنڈا بتایا اور کہا کہ پیشرفتوں کو رفتار عطا کرنا اور ملک کی معیشت اور لوگوں کی زندگي میں اس صنعت کی مصنوعات کی تاثیر اور ساتھ ہی اغیار کی ہنگامہ آرائي کو کنٹرول کرنا نیز ایٹمی صنعت کو محدود بنائے جانے سے روکنا، ایٹمی توانائی کے ادارے کے پروگراموں کا حصہ ہے اور ہمارے سائنسداں، بدخواہوں کی دھمکیوں کے باوجود، اس صنعت کی پیشرفت کے لیے اپنی لگاتار کوششیں جاری رکھیں گے۔