اوائل اسلام میں فتح اسلام کے بعد مسلمانوں کے درمیان مذہبی اقلیتیں موجود رہی ہیں ان میں سوائے ان مشرکین یا بعض طبقوں کے جو سازش کرتے تھے اور انسانوں کی زندگی اجیرن کرنا چاہتے تھے باقی سب اقلیتوں کا اسلام میں احترام کیا جاتا تھا۔ تاریخ میں ایک واقعہ کا ذکر ہے جس میں شاید معاویہ کے لشکر کے کسی شخص نے (روایت کے مطابق) ایک یہودی عورت (یہ حضرت علی(ع) کی حکومت کے زمانے میں سفیان بن عوف کے شہر ’’انبار ‘‘ پر حملے کی طرف اشارہ ہے، جس میں ایک اموی فوجی، دو عورتوں ایک مسلمان اور دوسری یہودی کا راستہ روک کر ان سے پازیب، چوڑیاں اور گوشوارے چھین لیتا ہے) کے پاؤں سے پازیب اتار لیا، حضرت علی (ع) نے فرمایا کہ ’’میں نے سناہے کہ وہ آئے ہیں اور ایک ذمیّہ عورت کا پازیب چھین کر لے گئے ہیں۔ اگر انسان غصے سے بھی مرجائے تو اس کیلئے کوئی بات نہیں ‘‘۔ حضرت علی(ع) اس طرح تمام طبقوں کے مفادات محفوظ رکھنے کیلئے کوشش کیا کرتے تھے۔ ہم یہودی معاشرے کے مسئلے کو صیہونزم اور صیہونیوں کے مسئلے سے الگ سمجھتے ہیں ۔ وہ تو بالکل اہل مذہب ہی نہیں ہیں۔ حضرت موسیٰ (ع) کی تعلیمات کہ جو الٰہی تعلیمات تھیں اور قرآن مجید میں تمام انبیاء سے زیادہ حضرت موسی (ع) کا ذکر ہوا ہے اور حضرت موسی ؑ کی تاریخ قرآن مجید میں مذکور ہے، یہ گرانقدر تعلیمات ہیں اور وہ ترتیب جس کو حضرت موسی(ع) نے فرعون کے سامنے پیش کیا ہے گرانقدر ہے۔ بظاہر ایک چرواہا ہوتے ہوئے نہایت قوی ارادے اور پوری قوت کے ساتھ، فرعون جیسی عظیم طاقت کے خلاف قیام کیا اور اس کو نابود کردیا۔
قدرت الٰہی اور مستکبروں کے مقابلے میں جن میں سب سے پہلا مستکبر فرعون تھا کمزوروں کے مفادات کی خاطر، مستکبرین کے خلاف قیام، حضرت موسی (ع) کا طریق کار تھا اور یہ بالکل اس چیز کے برخلاف ہے کہ جس کا پروگرام اس صیہونزم گروہ نے بنا رکھا ہے۔ ان کا رابطہ مستکبرین سے ہے۔ یہ ان کے جاسوس ہیں ۔ ان کے نوکر ہیں اور مستضعفین کے برخلاف کام کرتے ہیں ۔ حضرت موسی(ع) کی تعلیمات کے بالکل برعکس کہ جنہوں نے دوسرے انبیاء (ع) کی طرح، حضرت موسی ؑ نے انہی گلی کوچوں اور بازار کے معمولی افراد میں سے چند افراد کو ساتھ ملایا اور فرعون اور فرعونی طاقت کا بھرم توڑنے کیلئے اس کے خلاف قیام کیا، مستضعفین کی طرف سے مستکبرین پر حملہ ہوا تاکہ انہیں ان کے تکبر سے نیچے اتارا جائے۔ برخلاف ان صیہونیوں کے طریقے کے کہ یہ تو مستکبرین سے مربوط ہیں اور مستضعفین کے خلاف کام کرتے ہیں ۔ یہودیوں کی وہ تعداد جنہوں نے دھوکہ کھایا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے وہاں اکٹھے ہوئے ہیں جو یہودی ہیں اور حضرت موسی (ع) کی تعلیمات عالیہ کے علاوہ کسی اور کی پیروی نہیں کرنا چاہتے، شاید اب وہ پشیمان ہوں گے کہ وہاں آگئے ہیں ۔ اس لیے کہ وہاں جانے کے بعد جو شخص بھی ان کے کرتوت دیکھتا ہے کہ وہ لوگ کس طرح بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور کس قدر امریکہ اور دیگر طبقوں سے وابستہ ہیں ؟ تو وہ اس بات کو تحمل نہیں کرسکتا کہ یہ لوگ یہودی ہوتے ہوئے حضرت موسی(ع) کی تعلیمات کے برخلاف عمل کریں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہودیوں کا حساب وکتاب، صیہونیوں سے علیحدہ ہے۔ ہم صیہونیوں کے مخالف ہیں اور ہماری مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ وہ سب مذاہب کے مخالف ہیں ۔ وہ یہودی نہیں ہیں وہ تو سیاسی قسم کے لوگ ہیں جو یہودیوں کے نام سے کام کررہے ہیں خود یہودی بھی ان سے متنفر ہیں اور ہر انسان کو ان سے متنفر ہونا چاہیے۔
(صحیفہ امام، ج ۷، ص ۲۸۹)