آٹھ تاریخ کی کہانی

آٹھ تاریخ کی کہانی

کچھ لوگ چاہتے تھے کہ اس سانحے کو روک سکیں یا کم از کم مجرموں کو سزا دیں

 

تحریر: حر غفاری

 

اس کی آواز میں بلا کا درد تھا، وہ چیخ چیخ کر لوگوں کو اپنی جانب بلا رہا تھا، اس کی تکلیف اس کے چہرے پر بننے اور بکھرنے والے زاویوں سے ظاہر تھی۔ اس کی کربناک آواز سننے والوں کا کلیجہ چیر رہی تھی، بات ہی ایسی تھی، بالآخر جدید دور میں کبھی ایسا نہیں کیا گیا تھا اور وہ بھی اپنے لوگوں کے ہاتھوں، سب کو یاد تھا کہ قصوں کہانیوں میں ایسا ہوتا رہا، یا کافروں اور غیر مذہب کے لوگوں نے کئی مرتبہ ایسا کیا، لیکن کس نے سوچا تھا کہ مسلمان ایسا کرسکتے ہیں، وہ بھی مذہب کے نام پر۔۔۔ صاف واضح تھا کہ آج تک کے سبھی قصے سچ نظر آنے لگے تھے۔

 

لوگ بھاگے بھاگے اس کی طرف بڑھ رہے تھے، وہ اپنا چہرہ برے طریقے سے پیٹ رہا تھا، جلد ہی اس کے گرد ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہوگیا، اس نے اعلان دوبارہ دہرانا شروع کیا، لوگو سنو۔۔۔ غضب ہوگیا ہے، مقدس ترین جگہوں کو گرا دیا گیا، مسمار کر دیا، قریب ہے کہ آسمان ٹوٹ پڑے، زمین لرز جائے گی، لوگ مشتعل تھے، چاہتے تھے کہ انہیں خبر ملے کہ کس نے ایسا کیا، کون ایسی جرات کرسکتا ہے۔ بالآخر کسی طور انہیں روکا جائے یا ایسا سبق سکھایا جائے کہ وہ دوبارہ جرات نہ کرسکیں۔ بلانے والا بلائے جا رہا تھا، ان پر خدا اور اس کے رسول (ص) کی لعنت ہو۔ یہ بہت دردناک سانحہ ہے۔ یہ غم اس کے چہرے سے بھی ظاہر تھا۔ یہ کہہ کر اس نے پھر سے اپنا چہرہ پیٹ ڈالا، کچھ لوگوں نے اس کی اتباع کی اور اپنا چہرہ پیٹا، کچھ نے سینے پر ہاتھ مارا، غم کی شدت سے سبھی نڈھال تھے، واقعی غم انگیز سانحہ پیش آیا تھا۔

 

کچھ لوگ چاہتے تھے کہ اس سانحے کو روک سکیں یا کم از کم مجرموں کو سزا دیں، لیکن جلد ہی پوری فضا سوگ میں ڈوب گئی، سب نے گریہ و زاری شروع کر دی، اسی گریے میں نڈھال کچھ لوگوں نے آواز اٹھائی کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس مقدس مقام کو بچائیں، لیکن گریے کی آواز میں یہ آواز دب گئی۔ فریاد کرنے والے نے فریاد کی، میری جان قربان ہو ان مقدس مقامات پر، ہم اپنی جان قربان کرسکتے ہیں، لیکن ان مقامات پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔۔۔ لوگوں نے اس کی تائید کی۔ کچھ لوگ حیرت سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کہ بالآخر یہ کیوں مجرموں کے بارے میں بات نہیں کر رہے، کیوں ان مقامات کو بچانے کی بات نہیں کر رہے، اتنے میں آواز آنے لگی کہ ایک اور مقدس مقام کو نابود کرنے کے لیے کچھ شرپسند اکٹھے ہو رہے ہیں، لوگ گریے میں مصروف تھے، کچھ لوگ ایک دم چونکے، تیار ہوئے۔ سنتے ہی کمر کس لی اور حالات کا جائزہ لیا۔

 

کچھ لوگ جانا چاہتے تھے، لیکن انہیں اندازہ ہوا کہ وہ تو اس کے لیے تیار ہی نہیں ہیں، جانے والوں نے ہتھیار جمع کیے اور اپنے گھروں کو چھوڑ کر ان جگہوں کی حفاظت کو نکل گئے، انھوں نے اعلان کیا کہ وہ اپنی جان قربان کر دیں گے، لیکن کسی دشمن کو اجازت نہیں دیں گے کہ ان مقدس مقامات کو نقصان پہنچائیں۔ کچھ لوگ جانے والوں کو حسرت سے دیکھ رہے تھے، کچھ ان کی خدمت کرنا چاہتے تھے، تاکہ کسی طور ان کا حصہ شامل ہوسکے۔ دشمن حملہ کرچکا تھا، کچھ لوگ زخمی اور کچھ شہید ہوچکے تھے، کچھ لوگ دشمن پر شدید حملہ کرکے اسے بھگا رہے تھے کہ آئندہ کوئی کسی مقدس مقام کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرات نہ کرے۔

 

ایک ایک کرکے میدان میں اترنے والے کامیاب ہوئے، مشکلات بڑھتی گئیں لیکن یہ عجیب جذبے سے اٹھے تھے، ڈٹے رہے، قربان ہوتے رہے، اسیر ہوئے، اذیتیں برداشت کیں، لیکن پیچھے نہیں ہٹے، یہ ان مقدس مقامات کی عظمت کو جانتے تھے۔۔۔ دوسری طرف غم منانے والوں کا غم بڑھتا جا رہا تھا۔ فریاد بلند کرنے والے نے فریاد بلند کی، ہماری جانیں ان مقامات کی عظمت پر قربان، یہ تاریخ کا غمناک ترین واقعہ ہے۔ ہم اگلے سال پھر اسی تاریخ کو اکٹھے ہو کر یہ غم منائیں گے۔۔۔ اور پھر سب لوگ غم زدہ حالت میں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

ای میل کریں