قدس شریف

قدس شریف آزادی کے راستے پر

امام خمینی (رح) نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد پہلے ماہ مبارک رمضان میں ہی یوم القدس کا اعلان کر دیا اور ان کے اس اقدام نے مسئلہ فلسطین کو نہ صرف ایران بلکہ پوری اسلامی دنیا کا پہلا مسئلہ بنا دیا

تحریر: عباس حاجی نجاری

 

حالیہ چند دنوں کے واقعات جیسے صیہونی عناصر کی جانب سے مسجد اقصی کی بے حرمتی اور اسلامی مزاحمت کی جانب سے اس کا منہ توڑ جواب نیز دسیوں ہزار فلسطینی مسلمانوں کا مسجد اقصی میں نماز کیلئے حاضر ہو جانا اس عظیم ہدف کا مظہر ہے جو 44 سال قبل انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی رح کے مدنظر تھا اور اس کی خاطر انہوں نے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو "روز قدس" کا عنوان دیا تھا۔ امام خمینی رح کے بعد امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے بھی اسی ہدف کو آگے بڑھایا ہے۔ مقبوضہ فلسطین اور خطے کے حالات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطین میں جاری اسلامی مزاحمت تاریخ کے کسی حصے میں اتنی مضبوط اور طاقتور ہو کر سامنے نہیں آئی تھی جتنی ان دنوں دیکھی جا رہی ہے۔ دوسری طرف غاصب صیہونی حکمران مغربی طاقتوں کی بھرپور حمایت اور وسیع فوجی طاقت کے باوجود اس قدر کمزور اور بے بس نہیں تھے۔

 

امام خمینی (رح) نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد پہلے ماہ مبارک رمضان میں ہی یوم القدس کا اعلان کر دیا اور ان کے اس اقدام نے مسئلہ فلسطین کو نہ صرف ایران بلکہ پوری اسلامی دنیا کا پہلا مسئلہ بنا دیا۔ دوسری طرف یوم القدس اسلامی دنیا میں اتحاد اور وحدت کا مرکز بن کر سامنے آیا اور اسلامی ممالک میں ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے اس کا پرتپاک استقبال کیا۔ امام خمینی رح کا یہ اقدام اس سنہری اسلامی اصول پر استوار تھا جو دنیا کے ہر کونے میں مسلمانوں کے مال، عزت اور ان کی سرزمین کو درپیش کسی قسم کے خطرے کا مقابلہ کرنے کو پوری دنیا کے مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ ماضی میں غاصب صیہونی رژیم کے مقابلے میں کچھ عرب حکومتوں کی ناکامی کی بڑی وجہ ان کی جدوجہد کا اسلام کی بجائے قومی محرکات پر استوار ہونا رہا ہے۔ لہذا امام خمینی رح نے قدس شریف کی آزادی کیلئے اپنی جدوجہد کی بنیاد اسلام اور اسلامی طرز فکر پر رکھی۔

 

جب یہ جدوجہد آگے بڑھی تو فلسطین میں حماس اور اسلامک جہاد جیسے اسلامی مزاحمتی گروہ تشکیل پائے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے فلسطین سمیت دنیا کے ہر حصے میں امریکہ، اسرائیل اور دیگر استعماری قوتوں کے خلاف برسرپیکار مزاحمتی گروہوں کی اخلاقی، مالی اور فوجی حمایت کو اپنی خارجہ پالیسی کا مستقل اصول بنا رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد خطے میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ ان کی طاقت میں بھی بہتری آئی ہے۔ فلسطینی مجاہدین ابتدا میں پتھر سے صیہونی فورسز کا مقابلہ کرتے تھے لیکن الحمد اللہ آج ان کے پاس میزائل اور ڈرونز سمیت جدید ترین ہتھیار موجود ہیں۔ یہ سب کچھ اسلامی جمہوریہ ایران جیسے مقدس اسلامی نظام کی برکت سے ہے۔ خطے میں اسلامی مزاحمت کی ترقی کے کئی اسباب ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:

 

1)۔ حماس اور اسلامک جہاد جیسے مخلص اور دینی اقدار کے پابند مجاہد گروہوں کا غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جنگ کی اگلی صفوں میں شامل ہونا اور قدس شریف کی آزادی کیلئے پیش قدم ہونا۔

2)۔ فلسطینیوں میں غاصب صیہونی رژیم سے سازباز کرنے والے عناصر اور قوتوں کا عوامی حمایت کھو کر گوشہ نشین ہو جانا۔ فلسطین اتھارٹی جو مغربی کنارے پر حکمفرما ہے، اسرائیلی جاسوسی اداروں جیسے موساد اور شاباک کے ساتھ قریبی تعاون کرتی چلی آئی ہے۔ یوں وہ فلسطینی عوام می نظر میں منفور ہو چکی ہے اور فلسطینی عوام نے اس کی بجائے حماس اور اسلامک جہاد کی حمایت شروع کر دی ہے۔

3)۔ فلسطینی مجاہدین کی فوجی طاقت میں اضافہ اور پتھر کی بجائے میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے غاصب صیہونی رژیم کا مقابلہ کرنا۔

 

4)۔ غاصب صیہونی رژیم ماضی میں صرف غزہ کی پٹی میں اپنے خلاف مزاحمت سے روبرو تھی لیکن کچھ عرصے سے مغربی کنارہ اور مقبوضہ بیت المقدس میں مسلح اسلامی مزاحمت اور مزاحمتی کاروائیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ گذشتہ چند ماہ میں فلسطینی مجاہدین نے بیت المقدس اور مغربی کنارے میں متعدد شہادت طلب کاروائیاں انجام دی ہیں۔ یوں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف کئی نئے محاذ کھل گئے ہیں۔

5)۔ فلسطینی مجاہدین کی جانب سے بڑی تعداد میں مسلح مزاحمتی کاروائیوں کے باعث غاصب صیہونی رژیم اپنی سکیورٹی برقرار رکھنے میں شدید مشکلات کا شکار ہو چکی ہے۔ یوں صیہونی آبادکاروں کی روزمرہ زندگی شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں غاصب صیہونی اسرائیل چھوڑ کر واپس جانے کی تیاری کرنے لگے ہیں۔

6)۔ فلسطینیوں کی مسلح مزاحمتی کاروائیوں میں تیزی کے باعث صیہونی رژیم اپنی تقریباً نصف فوج اندرونی علاقوں میں تعینات کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔

 

7)۔ امریکہ ابتدا سے ہی غاصب صیہونی رژیم کا اصلی حامی رہا ہے اور اس کے ظالمانہ اقدامات میں اس کی ہر قسم کی اخلاقی، مالی اور فوجی مدد کرتا آیا ہے۔ گذشتہ چند برس سے عالمی سطح پر امریکہ کی طاقت اور اثرورسوخ میں شدید کمی واقع ہوئی ہے جس کے باعث غاصب صیہونی رژیم کو بھی شدید دھچکہ پہنچا ہے۔

8)۔ جب سے بنجمن نیتن یاہو نے نئے وزیراعظم کے طور پر حکومت سنبھالی ہے پورے مقبوضہ فلسطین میں اس کے خلاف شدید عوامی احتجاج جاری ہے اور غاصب صیہونیوں کی اندرونی کشمکش میں بہت زیادہ شدت آئی ہے۔ اس مسئلے نے بھی صیہونی رژیم کو بہت حد تک کمزور کر دیا ہے۔

9)۔ صیہونی رژیم کے ساتھ سازباز کرنے والے خطے کے عرب ممالک میں بھی اختلافات پھوٹ پڑے ہیں۔ ان عرب حکمرانوں کے درمیان اختلافات نے ابراہیم معاہدے کی اہمیت اور افادیت تقریباً ختم کر دی ہے۔

10)۔ اسلامی ممالک میں مظلوم فلسطینی قوم اور قبلہ اول ہونے کے ناطے قدس شریف کی حمایت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کی تازہ ترین مثال قطر میں فٹبال ورلڈ کپ کے دوران دیکھی گئی۔

ای میل کریں