تحریر: ڈاکٹر انصار مدنی
سماجی زندگی کے بندھنوں میں جڑے ہوئے لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ہر رشتے کی اہمیت بھی ہے اور افادیت بھی۔ مثلاً ماں کا وجود ان بچوّں کے لئے زندگی کا اثاثہ ہے جو ماں کی عزت وتکریم کے قائل ہیں، جب ایسے بچوں کو حسنِ انتخاب کا موقع ملے کہ وہ مال و دولت کا مالک بننا پسند کریں گے یا ماں کے آغوشِ محبت میں رہنا چاہتے ہیں؟ یقیناً ان کا حسنِ انتخاب ماں کی آغوشِ محبت ہوگی۔ اسی تصورِ حیات کی روشنی میں جب ہم اللہ تعالیٰ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا میں رشتوں کی اہمیت و افادیت نظر آتی ہے۔ ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہم ان تمام رشتوں کی عظمت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں سمجھیں مگر آپ کے پاس اتنا وقت نہیں کہ تحریر کی ضخامت برداشت کریں اس لئے آج ہم صرف ایک رشتہ کی اہمیت پر بات کریں گے جو خاندان کی بنیاد ہے۔ خاندان کا ہر فرد اس پاک ہستی کے زیر سایہ تربیت کے مراحل طے کرتا ہے شوہر کی زبان میں بیوی اور بچوں کی زبان میں ماں۔ اعلان نبوت کے دس سال بعد دس رمضان المبارک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مونس و غم خوار، ملیکة العرب، صدیقہ، سیدہ، طاہرہ، ام المومنین، ام المساکین، حضرت خدیجتہ الکبریٰ سلام اللہ علیہا نے وفات پائی۔
عام لوگوں کے لیے یہ ایک خبر تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے آشیانے سے باہر نکلی مگر گھر والوں کے لیے یہ لمحہ انتہائی غمگین، ناقابلِ فراموش تھا اس تکلیف کو سمجھنے کے لیے زبانِ رسالت سے نکلا ہوا یہ جملہ "عام الحزن" یعنی غم کا سال کافی ہے۔ اس جملے کی شدت کو محسوس کرنے کے لیے تاریخ کے جھروکوں میں جانا ضروری ہے، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بی بی خدیجہ س اپنے عہد میں نابغہ روزگار شخصیت کی مالک تھیں۔ آپ سلام اللہ علیہا جب باپ کے گھر میں تھیں تو اپنے عادات و اطوار کے ذریعے صدیقہ، طاہرہ، سیدہ، ملیکة العرب کے القابات پائے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت میں آئیں تو ام المومنین، ام المساکین، الکبریٰ اور مونس و غم گسار بن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ زندگی کا حصہ بنی۔ بی بی خدیجہ (س) کی زندگی کے کئی اہم پہلو ہیں جن کو سمجھنے کے لیے اس عہد کے سماجی اور معاشی رویوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ مثلاً
1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غار حرا کی طرف جاتے تھے تو بی بی خدیجہ (س) خاندانِ مصطفیٰ کی امین و محافظ بن کر اپنے شوہر کو فکرِ معاش سے آزاد کرکے عبادت وریاضت کا موقع فراہم کرتی تھیں۔
2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دشمنی میں جو لوگ اس عہد میں سرگرمِ عمل تھے ان کی ہر سازش کو ناکام بنانے میں آپ س پیش پیش تھیں بلکہ تاریخ کے سینے میں وہ تکلیف دہ کیفیات بھی محفوظ ہیں جہاں آپ کے پڑوس میں رہنے والے ابولہب اور ان کی بیوی رات کی تاریکی میں دروازے کے باہر کانٹے بچھا کر خاندانِ مصطفیٰ کے ہر فرد کو لہو لہان کرتے تھے۔ آپ (س) نے اپنے بدترین ہمسایوں کے مظالم برداشت کیے مگر انہیں شکایت کا موقع فراہم نہیں کیا۔
3) جو لوگ تجارت سے منسلک ہیں وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ایک تاجر تجارتی سرگرمیوں سے اس وقت فائدہ اٹھا سکتا ہے جب وہ سامان تجارت کی نقل و حرکت پر گہری نظر رکھیں، اسی تناظر میں جب ہم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت و تبلیغ دین میں مصروفیت یا غار حرا میں عبادت و ریاضت میں یکسوئی اور تنہائی کو دیکھتے ہوئے آپ (ص) کی غیر موجودگی میں تجارتی معاملات کو دیکھتے ہیں تو ام المومنین حضرت خدیجہ (س) کی تجارتی معاملات کی فہم اور کردارِ مصطفیٰ (ص) پر آنچ نہ آنے دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
4) اس عہد میں جن قبائل میں بچیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم تھی وہاں عموماً باپ قبر کھود کر اپنی بیوی کو حکم دیتا تھا کہ میرے واپس آنے تک آپ اس نومولود بچی کو جی بھر کر دیکھیں پھر اس قبر میں دفن کریں، یہی وہ لمحات ہوتے تھے جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بی بی خدیجہ (س) اپنی کنیزوں کے ذریعے بڑی رازداری کے ساتھ بچیوں کے ماؤں کو اعتماد میں لے کر انہیں آشیانہ خدیجة الکبریٰ منتقل کرتی تھیں، پھر ان بچیوں کی تعلیم و ترتیب کا اہتمام کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا اسی تناظر میں اگر ہم آشیانہ خدیجہ (س) کو پہلا دارالامان کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔
5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت و تبلیغ سے نفرت کرنے والوں نے جب معاشی، سماجی اور معاشرتی طور پر بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جان نچھاور کرنے والوں نے شعبِ ابی طالب کو مسلسل تین سال تک اپنا مسکن بنایا جہاں بھوک و افلاس کے ایسے لمحات سے جان نثاران مصطفیٰ کو گزرنا پڑا وہاں سے واپسی کے چند دنوں یا مہینوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت ابو طالب (ع) اور ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ (س) وفات پاگئیں۔
ہم سب یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چاہنے والے ہیں، محبت والے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنے والے ہیں، اسی لیے ہم چشمِ تصور سے ان غمگین لمحات کو محسوس کرتے ہوئے، خاندانِ مصطفیٰ کے ہر فرد سے تعزیت کرتے ہیں۔ آج کے بعد ہم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے سے وابستہ ہر رشتے کی عزت و تکریم کریں گے۔