امام خمینی(رح) کے فکری خدشات میں سے ایک اہم مسئلہ مسلم عوام بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے اور ان کے دانشوروں کی "مغرب زدہ" ہونا تھا۔ متعدد بار اور بہت سے معاملات میں انہوں نے اسلامی ممالک میں مغربیت اور مغرب زده ہونے کے پھیلانے کے عوامل اور اس کے خطرات اور برے نتائج کا اظہار کیا ہے، اسلامی ممالک میں سے خاص کر ایران کے اسلامی معاشرے سے اس عظیم پیچیدگی اور آفت کو ختم کرنے اور اسے دور کرنے کے لیے اشارے اور ہدایات دی ہیں،
امام خمینی (رح) کی رائے میں "مغربیت" کا مطلب یہ ہے کہ لوگ مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنی بالقوة اور بالفعل صلاحیت پر بھروسہ نہ کریں اور ترقی اور کمال حاصل کرنے کے لیے بیرونی طاقتوں پر انحصار کریں۔ اور "مغرب پسند" وہ ہے جو مواد سے خالی ہو اور اپنے وجود اور اپنے معاشرے میں اس کے ذریعے مادی اور روحانی مقاصد حاصل کرنے کی کوئی صلاحیت محسوس نہ کرے اور وہ مغرب اور مغربی ثقافت میں مسائل کا واحد حل، ترقی اور کمال دیکھتا ہے۔ اور اس نے اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو مغربی ثقافت اور رسم و رواج سے سجانا ملکی ثقافت کی نجات کا واحد راستہ سمجتا ہے۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
مغرب والوں نے اپنے پروپیگنڈوں کے ذریعے خوف و دہشت کا ایک سماں پیدا کر دیا ہے اوراسی خوف کے توسط سے وہ اپنے مقاصد حاصل کرتے تھے۔ اکثر لوگ اس خوف کے مارے گوشہ نشین ہوجاتے تھے اور ہر مسئلے سے بے اعتنائی کرتے ہوئے خوف زدہ رہتے تھے۔ اگرچہ ان میں اتنی طاقت نہیں کہ ایک قوم وملک کو ختم کرسکیں ، لیکن وہ دہشت پھیلا کر اپنے مقاصد حاصل کرتے تھے۔ لیکن ایرانی قوم نے اس چیز کو توڑ دیا اور اس نظام کو ختم کر کے رکھ دیا۔
بڑی طاقتوں کے حوالے سے بھی مسئلہ ایسا ہی ہے کہ حقیقت سے بڑھ کر پروپیگنڈہ کیا گیاہے۔ فرض کریں کہ اگر کوئی کام کسی چھوٹی حکومت میں روس یا امریکہ کی مرضی کے برخلاف ہوتا تو یہی کافی تھا کہ امریکہ یا روس اس دولت کو عتاب کریں اور اسی عتاب پر اس کا کام ختم کردیا جاتا تھا یا مثلاً جس وقت دوسروں کی نسبت برطانیہ طاقتور تھا تو وہ ایران کے نزدیک سمندر میں اپنی کشتیاں لے آتا تھا اور جیسے ہی اس جگہ کشتی آتی اس وقت نہ تو اس ملک کی پارلیمنٹ کچھ بولتی اور نہ حکومت کوئی آواز اٹھاتی تھی۔ پھر جو کچھ وہ چاہتے مسلط کرتے تھے۔ یہ منصوبہ بھی ایران میں ناکام بنا دیا گیاہے۔
(صحیفہ امام، ج ۱۳، ص ۳۰۲۔ ۱۲؍۸؍۵۹ (۳ نومبر ۱۹۸۰ء) مشن امام کے پیروکار مسلمان اسٹوڈنیٹس سے خطاب)