وہ خاص عمل جو امام خمینی (رح) رجب کے مہینے میں، فرض سمجھتے تھے

وہ خاص عمل جو امام خمینی (رح) رجب کے مہینے میں، فرض سمجھتے تھے

اگر زہدورزی نسبی ہو سکتا ہے، لیکن اس کی حقیقت سب کو پسند ہے، یہ فطرت سلیم اور عقل سلیم سے ہم آہنگ ہے

جی پلاس کے رپورٹ کے مطابق، امام خمینی (رح) کی خصوصیات کے بیان میں زہد ایک ایسی جہت ہے جس پر کم بحث کی جاتی ہے، یہ وه خصوصیت ہے جو ان کی زندگی کی روح میں داخل ہوئی تھی، مرحوم حاج احمد خمینی کی اہلیہ ڈاکٹر  فاطمہ طباطبائی نے، جنہیں امام کی مرید و شاگرد کہا جا سکتا ہے، 1997ء میں خواتین کے ہفتہ کے موقع پر ان سے گفتگو کرتے ہوئے امام کی زہد کے بارے میں ایک یادداشت بیان کی اور ماہ رجب میں وه ایسی عمل کے حوالے سے ایک بہت اہم نکتہ بیان کیا جو درج ذیل ہے:

 

اگر زہدورزی نسبی ہو سکتا ہے، لیکن اس کی حقیقت سب کو پسند ہے، یہ فطرت سلیم اور عقل سلیم سے ہم آہنگ ہے۔ مثال کے طور پر وہی نکتہ جس کا میں نے ذکر کیا، ایک مرتبہ امام کے لئے دو کلو تازہ پھل خریدا تو وہ ناراض ہوئے اور کہا کہ میں یہ نہیں کھا سکتا۔ کیونکہ ایسی حالات نہیں کہ ہر کوئی خرید سکتا۔ یہ ایک حقیقت تھی جو ہوا؛ لیکن اس کے علاوہ میں نے ماہ رجب میں امام کو دیکھا، جن کے پاس خاص عبادت کا پروگرام ہے، خاص ذکر ہے، اور یہ بھی مفاتیح میں ہے، ذکر کے آخر میں لکھا ہے، اس ذکر کو صدقہ و خیرات سے ختم کرو۔ جب وہ جا رہے تھے تو مجھ سے کہنے لگے آج دس بجے آؤ، مجھے تم سے کچھ کام ہے۔ جب میں گیا تو انہوں نے مجھے اپنے پیسوں کے لاکر کی چابی دی اور کہا: آج جتنا ہو سکے لے لو اور ایسے غریبوں کو دے دو جسے تم جانتی ہو اور مجھے یہ نہیں بتانا کہ تم نے کتنا لیا ہے۔ دوسری طرف، ان کے کام کا کوئی حساب نہیں، انہوں نے اپنے سے متعلق چیزوں میں بہت کچھ انفاق کیا۔ لوگ بہت منتیں مانتے تھے، ڈھیروں تحائف لاتے تھے، اور ان تمام تحائف کو اسی طرح استعمال کرتے تھے، انہوں نے مجھے الماری کی چابی دی اور کہا: آج جتنا ہو سکے غریبوں کو دے دو۔ جب ہم اس مضمون کو دو کلو کھیرے یا دو کلو تازه پھل کے آگے رکھیں گے تو امام کی شخصیت کی عظمت کھل جائے گی۔

 

میرے لیے جو نکتہ بہت دلچسپ تھا وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص واقعی اللہ کی راہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ تمام نعمتیں عطا کرتا ہے جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیں کہ امام نے امیر اور مالدار ہونے کے لیے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا اور یہ وہ چیز ہے جسے سب جانتے ہیں اور اس میں بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اس طرف سے ہم دیکھتے ہیں کہ خرچ کرنا، خیرات دینا، لوگوں تک پہنچانا، یتیموں تک پہنچانا، مظلوموں تک پہنچنا، محروموں کے لیے مکان خریدنا، بیماروں کے علاج میں مدد کرنا وغیرہ انہی کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ یہ سب چیزیں ہیں جن میں ثواب ہے۔ امام نے امیر ہونے کے لیے قدم نہیں اٹھایا۔ لیکن خدا نے ان سے یہ موہبت اور لطف نہیں روکا۔ کہ میں اس وقت گواہ تھا اور میں یقین اور سچائی کے ساتھ قسم کھا سکتی ہوں کہ اس دن اس مستحب عمل کا اتنا ثواب کوئی نہیں لے سکتا امام جتنا؛ یعنی اس صدقہ کا ثواب، اس انفاق کا ثواب، بیماروں کی مدد کرنے کا ثواب، بے گھر کو گھر دینے کا ثواب، یہ بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کیا۔

 

کتاب "یک ساغر از ہزار" کا ایک حصہ: سیری در عرفان امام خمینی (رح)، ص 394 – 395؛ 1997ء کے خواتین کے ہفتہ میں انٹرویو

ای میل کریں