اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام عوامی یا آمرانہ؟
تحریر: یداللہ جوانی
ایران میں حالیہ ہنگاموں اور بدامنی کے دوران عالمی استکبار سے وابستہ میڈیا مافیا نے مختلف جگہوں پر انجام پانے والے اعتراضات میں "مردہ باد ڈکٹیٹر" پر مبنی نعرہ زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی بھرپور کوشش کی ہے جو اب بھی جاری ہے۔ بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران میں حکمفرما سیاسی نظام آمرانہ نوعیت کا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے سب سے پہلے آمر، آمریت اور آمرانہ نظام کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے اور اس کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کا اس کے آئین نیز گذشتہ 43 برس کی کارکردگی کی روشنی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس مختصر تحریر میں چند اہم نکات بیان کئے گئے ہیں:
1)۔ آمر، آمریت، آمر رہنما، آمرانہ نظام یا آمرانہ نوعیت کے سیاسی سیٹ اپ کی تعریفوں میں ایک مشترکہ نکتہ پایا جاتا ہے جو "حاکم یا حکام اور عوام میں رابطے کا فقدان" ہے۔ دوسرے الفاظ میں آمر قیادتیں اور آمرانہ سیاسی نظام، یکطرفہ طور پر اپنا ارادہ یا مرضی عوام پر ٹھونستے ہیں جبکہ عوام فیصلہ سازی اور فیصلہ کرنے کے عمل میں کوئی کردار نہیں رکھتے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے بادشاہت اور سلطنت کا نظام ایسا ہی تھا۔ ایران میں رونما ہونے والا اسلامی انقلاب ایک سو فیصد عوامی انقلاب ہونے کے ناطے اینٹی آمریت (اندرونی آمریت) اور اینٹی استعمار تھا اور اس نے ایران میں جاری آمریت کا خاتمہ کر دیا۔
2)۔ 11 فروری 1979ء کے دن ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی رح، انقلاب اور عوام میں اپنی پوزیشن کے تناظر میں آئندہ چند برس تک جو چاہتے کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور آغاز سے ہی ملکی امور انقلابی عوام کے سپرد کر دیے اور تمام فیصلوں کو عوامی ووٹ پر موکول کر دیا۔
سیاسی نظام کی نوعیت، ملکی آئین کی تشکیل اور اسلامی جمہوریہ کے آئین کی قومی سطح پر منظوری کیلئے ریفرنڈم 1980ء میں تین ایسے اہم ایشوز تھے جو آزادانہ انتخابات کے ذریعے عوام کے بھاری مینڈیٹ کے ذریعے واضح کئے گئے۔
3)۔ عوام کے منتخب کردہ ایکسپرٹس کے ذریعے ملکی آئین لکھا گیا اور اس کے بعد دوبارہ عام ریفرنڈم کے ذریعے عوام سے منظور کروایا گیا۔ آئین میں ملکی امور چلانے کا طریقہ کار پوری طرح واضح کیا گیا ہے۔ ایران کے آئین کی شق نمبر 6 میں آیا ہے: "اسلامی جمہوریہ ایران میں ملکی امور عوامی مینڈیٹ کی بنیاد پر چلائے جائیں گے۔ الیکشن کے ذریعے جیسے صدر، اراکین پارلیمنٹ، اراکین کاونسلز وغیرہ کا انتخاب، یا ریفرنڈم کے ذریعے جس کے موارد آئین کی دیگر شقوں میں بیان کئے گئے ہیں۔
4)۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی گذشتہ 43 سالہ کارکردگی کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے:
الف)۔ آٹھ سالہ تھونپی گئی جنگ جیسی مشکلات موجود ہونے کے باوجود حکومتی عہدیداروں کے انتخاب کیلئے آئین میں ذکر شدہ تمام الیکشن حتی ایک دن کی تاخیر کے بغیر طے شدہ تاریخ پر قانون کے مطابق انجام پائے ہیں۔
ب)۔ تمام منعقدہ انتخابات میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر الیکشن میں شرکت کی ہے۔
ج)۔ ایران میں تمام انتخابات آزادانہ، قانون کے مطابق اور مختلف سیاسی دھڑوں میں مقابلے کے ساتھ انجام پائے ہیں۔
د)۔ حکومت، پارلیمنٹ اور یونین کاونسلز میں مختلف رجحانات کے حامل سیاسی حلقوں میں طاقت کی منتقلی سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام انتخابات میں حالات اور مختلف سیاسی حلقوں کی کارکردگی کی روشنی میں حتمی فیصلہ عوام کرتے ہیں۔
ھ)۔ امام خمینی رح اور رہبر معظم انقلاب جو خود عوام کے منتخب ہیں نے ہمیشہ ہر الیکشن کے موقع پر عوام پر بھرپور انداز میں شرکت کرنے اور معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص پر ووٹ دینے کی تاکید کی ہے۔
5)۔ بیان شدہ مطالب کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران عوامی نوعیت کا سیاسی نظام ہے۔ ایسے عوام جو مسلمان ہیں اور انہوں نے اپنے اسلامی انقلاب کے ذریعے پہلوی کے آمرانہ نظام کو سرنگون کیا ہے اور جدوجہد کے دوران اپنے مطلوبہ اسلامی جمہوریہ نظام کو بھاری مینڈیٹ کے ذریعے برسراقتدار لائے ہیں۔
ایرانی قوم نے اسلامی انقلاب کے ذریعے "دینی جمہوریت" نامی حکمرانی کا ایک نیا ماڈل دنیا والوں کو متعارف کروایا ہے۔ حکمرانی کے اس نئے ماڈل نے تمام عوام مخالف، طاغوتی اور آمرانہ سیاسی نظاموں کو پریشان کر ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ 43 برس سے عالمی استکبار اور عوام مخالف سیاسی نظام ہر ممکنہ طریقے سے حکمرانی کے اس نئے ماڈل کو دنیا کی دیگر اقوام کیلئے رول ماڈل بن جانے سے روکنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف ہے۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ گذشتہ 43 برس کے دوران اسلامی انقلاب اور ایرانی قوم کے خلاف انجام پانے والی تمام سازشوں میں ایک مخصوص ٹولہ ملوث رہا ہے۔ اس ٹولے میں امریکہ، بعض استعماری یورپی حکومتیں، اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم، بعض رجعت پسند اور آمرانہ عرب حکومتیں، منافقین، سلطنت پسند اور بہائی وغیرہ شامل ہیں۔